editorial

’بچوں کا بھیک مانگنا:ایک اجتماعی المیہ‘

آج کے سماج کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ بھیک مانگنے والوں کی صف میں معصوم بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ وہی بچے ہیں جو کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے سنہرے دور میں، دفتر کے دروازوں، بازاروں کے چوراہوں، پارکوں اور بس اڈوں پر ہاتھ پھیلائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ المیہ یہ نہیں کہ یہ بچے سڑک پر ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں تعلیمی ماحول اور مثبت تربیت سے دور رکھا جا رہا ہے، تاکہ ان کے ذہنوں میں تعلیم کی روشنی کبھی جاگزین نہ ہو۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ بیشتر بھکاری بچوں کو یا تو والدین خود استعمال کرتے ہیں یا وہ کسی منظم گروہ کے پنجے میں پھنسے ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت یتیم یا بے سہارا بچوں کی ہوتی ہے، جنہیں آسان شکار سمجھ کر مجرم گروہ سڑکوں پر دھکیل دیتے ہیں۔ افسوس کہ انسانی حقوق کے ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں جو بچوں کے مستقبل کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہیں، اس مسئلے پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ سرکاری انتظامیہ بھی ان معصوموں کو اس لعنت سے نجات دلانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرینگر جیسے شہر میں بھکاری بچوں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے اور ان میں بڑی تعداد بیرونِ ریاست سے لائے گئے بچوں کی ہے۔
ایک بھکاری بچے نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ صبح سویرے کوئی “چچا” انہیں چوراہے پر چھوڑ جاتا ہے اور شام کو واپس لے جاتا ہے۔ مگر نہ وہ “چچا” حقیقی ہے، نہ اس کا کوئی اتہ پتہ۔ یہ بچے بس ایک بھیانک کھیل کا حصہ ہیں، جس میں ان کی معصومیت اور مستقبل دونوں دائو پر لگائے جاتے ہیں۔
اگرچہ حکومت ہر سال بچوں کی فلاح اور تعلیم کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھکاری بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان وعدوں کی قلعی کھول دیتی ہے۔ آئین ہر بچے کو بنیادی تعلیم کا حق دیتا ہے، لیکن ہزاروں بچے آج بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ جب تک اس وبا کو روکنے کے لیے سخت اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک نہ بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا اور نہ ہی سماج کی بنیادیں۔
یہ صورتحال محض ایک سماجی برائی نہیں بلکہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر خاموش رہنا اجتماعی جرم کے مترادف ہے۔