editorial

’’زوالِ اخلاق اور ایمان کی کمزوری، ہمارا آئینہ‘‘

آج کا مسلمان ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جہاں دین اور دنیا کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ وہ تعلیمات، ہدایات اور اصولِ زندگی جو ہمیں اسلام نے بطورِ درس عطا کیے، اور جن پر ہماری فلاح کا انحصار تھا، وہ گردِ راہ میں گم ہو چکی ہیں۔ آج زمانہ یہ نعرہ لگاتا ہے کہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلو، مگر المیہ یہ ہے کہ اس کا مطلب یوں سمجھا گیا ہے کہ حلال اور حرام کا فرق مٹا دیا جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ چوری کو چالاکی کہا جا رہا ہے، غلط کو درست اور درست کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، والدین کی نافرمانی عام ہو گئی ہے، بدعت کو دین کا حصہ سمجھا جا رہا ہے، رشوت کو حقِ محنت کا نام دیا جا رہا ہے، اور دل و زبان دونوں میل سے بھر چکے ہیں۔
جھوٹ ہماری زبان کا زیور بن گیا ہے اور سچ کہیں شرمندہ سا چھپا بیٹھا ہے۔ سب سے بڑی تباہی یہ ہے کہ خوفِ خدا ہمارے دلوں سے رخصت ہو چکا ہے۔ اگر کسی چیز کا خوف باقی ہے تو صرف لوگوں کا اور سماج کا، ایسا سماج جس کی خوشنودی کے لیے ہم وہ سب کر گزرتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے۔ جمعہ اور عید کی نماز پڑھ کر، قرآن کو بوسہ دے کر، پھر اُسے الماری میں واپس رکھ دینا ہی عبادت کا خلاصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ مصیبت آئے تو تسبیح ہاتھ میں لے لی جاتی ہے، مگر راحت کے دنوں میں اللہ کو بھلا دیا جاتا ہے، ہم اپنے نفس سے جہاد کرنے کے بجائے اُس کے غلام بن گئے ہیں۔ لوگ موت کو بھول کر ایسے زندگی گزار رہے ہیں جیسے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے۔ ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت سمجھنے سے انکار ہے کہ دین اور دنیا کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، دین ہی اصل دنیا ہے۔ امام علیؑ نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 147 میں جس زمانے کی تصویر کھینچی ہے، وہ آج کا زمانہ ہے۔ کاش ہر مسلمان اُس خطبے کو سنے، سمجھے اور آئینے میں اپنا عکس دیکھے۔
افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے کہ سرزمینِ کشمیر، جس کی پہچان مہمان نوازی، غیرت، محبت اور ایثار سے کی جاتی ہے، آج بے بسی اور اخلاقی زوال کا ایسا نقشہ کھینچ رہی ہے جو دل کو چیر دے۔ یہ وہی وادی ہے جہاں کبھی بھوکا پڑوسی برداشت نہ کیا جاتا تھا، جہاں روٹی کا آخری نوالہ بھی ضرورت مند کے ساتھ بانٹا جاتا تھا، جہاں عزت و حرمت کی حفاظت ایمان کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ مگر آج وہی وادی اس حال پر آ گئی ہے کہ انسانیت کی حدیں ٹوٹ چکی ہیں، حرام و حلال کا فرق مٹ گیا ہے، اور کتے کے گوشت تک کھلائے جا رہے ہیں۔
اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کا سہارا بننے کے بجائے اس کا دشمن بن گیا ہے۔ نفرت، حسد، لالچ اور خود غرضی نے بھائی چارے کو نگل لیا ہے۔ یہ منظر صرف کشمیر کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے زوال کی علامت ہے۔ اور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سب کسی اور کے ظلم یا سازش کا نہیں، بلکہ ہمارے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ہمیں چاہیے کہ اپنی آخرت سنواریں، اپنے دلوں کو پاک کریں، زبان کو سچ سے آراستہ کریں، والدین کی عزت بحال کریں، حرام و حلال میں فرق کو واضح رکھیں اور اپنے سینوں میں خوفِ خدا کا چراغ دوبارہ جلائیں۔ یاد رکھیں! اگر خوفِ خدا ہمارے دلوں سے نکل گیا تو ہم زندہ تو رہیں گے، مگر انسان نہیں رہ پائیں گے اور ایمان کے درخت کو مضبوط جڑوں کے ساتھ پروان نہیں چڑھا پائیں گے، کیونکہ ایمان ہی وہ سایہ ہے جو دنیا کی دھوپ اور آخرت کی گرمی سے بچاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک زِندہ مثال اُُن غزہ کے لوگوں کی ہے جو بھوک، خوف، بمباری اور جنازوں کے بیچ بھی اپنے ایمان پر قائم ہیں۔ ذرا ایک لمحہ اُن کی جگہ خود کو کھڑا کر کے سوچیں کہ ایسی آزمائش میں ثابت قدم رہنا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ سوچ دل کو نرم کرے گی اور ضمیر کو جگائے گی، کیونکہ جو درد ہم دوسروں کا محسوس نہیں کرتے، کل وہی درد ہمیں خود سہنا پڑ سکتا ہے۔