جموں و کشمیر کا پانی کشمیری عوام کی اولین ترجیح ہے

جموں و کشمیر کا پانی کشمیری عوام کی اولین ترجیح ہے

عمر عبداللہ کا دوٹوک موقف ،جموں و کشمیر کا پانی ہمارے عوام کی امانت ہے، کسی اور کو دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

سرینگر/ / وی او آئی//جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج جموں میں ایک نئے رابطہ دفتر کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت ہند کی جانب سے 113 کلومیٹر طویل نئی نہر کی مجوزہ اسکیم کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ جموں و کشمیر کا فاضل پانی پنجاب، ہریانہ یا راجستھان نہیں جائے گا، جب تک یہاں کے عوام کو مکمل فراہمی نہ ہو۔وزیر اعلیٰ نے کہاہم پہلے اپنے گھروں کے نلکوں میں پانی دیں گے، پھر کسی اور کی بات کریں گے۔ جب جموں خود خشک سالی سے دوچار ہے، تو میں کیوں پنجاب پانی بھیجوں؟انہوں نے انڈس واٹر معاہدے کی تاریخی تلخیوں کا بھی حوالہ دیا کہ جس وقت پنجاب کے پاس تین دریا تھے، اس نے جموں و کشمیر کے لیے پانی نہیں دیا۔ آج جب ہمیں ضرورت ہے، ہم دوسروں کو کیسے دیں؟وائس آف انڈیا کے مطابق جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج جموں میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک مجوزہ تجویز کو سختی سے رد کر دیا، جس کے تحت دریائے سندھ کے تین مغربی دریاؤں سے حاصل ہونے والے فاضل پانی کو ایک 113 کلومیٹر طویل نہر کے ذریعے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ *”جب جموں میں خود پانی کی قلت ہے اور لوگ نلکوں میں پانی کے انتظار میں ترس رہے ہیں، تو ہم دوسروں کو پانی کیوں دیں؟ ہمارا پہلا فرض اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب تاریخی طور پر پنجاب نے انڈس واٹر معاہدے کے تحت ہمیں پانی فراہم نہیں کیا، تو آج ہمیں اپنے وسائل بانٹنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔وزیر اعلیٰ نے اس تجویز کو عوامی مفاد کے خلاف قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ جموں و کشمیر کا پانی یہاں کے عوام کی ملکیت ہے، جسے ہم بغیر کسی قانونی، ماحولیاتی اور عوامی مشاورت کے باہر نہیں جانے دیں گے۔دورانِ گفتگو عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی اور سجاد لون کو بھرتی میں ریزرویشن پر سیاسی منافقت کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب انہیں ووٹوں کی ضرورت تھی، تو اس وقت ریزرویشن پر بات نہیں کی گئی۔ آج جب کمیٹی نے چھ ماہ کے اندر رپورٹ مکمل کر دی ہے، تو شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے کمیٹی کی رپورٹ کو منظور کر کے قانونی رائے کے لیے محکمہ قانون کو بھیج دیا ہے تاکہ حتمی فیصلہ قانونی اور آئینی بنیادوں پر ہو۔ریاستی درجے کی بحالی پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا کیا گیا وعدہ جلد مکمل کیا جائے گا۔ *”ہم صبر سے ریاستی درجہ بحال ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، اور یہ عوامی اُمید سے جڑا ہوا ایک بڑا وعدہ ہے۔علاقائی اور عالمی سطح پر جاری کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے ایران میں پھنسے 1600 کشمیری طلبا کی حالت پر گہری تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر ایران کا نیوکلیئر پروگرام نہیں تھا، تو اسرائیل نے اس پر حملہ کیوں کیا؟ وہاں ہمارے بچے موجود ہیں، ہمیں ان کی سلامتی کی فکر ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو چاہیے کہ اس نازک صورتحال میں ان طلبا کی جلد واپسی اور تحفظ کے لیے جامع اقدامات کرے تاکہ والدین کے دلوں میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کیا جا سکے۔مزید برآں، جب ریزرویشن پر کابینہ سب کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر آیا، تو عمر عبداللہ نے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اور پیپلز کانفرنس کے سجاد لون پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جب انہیں ووٹوں کی ضرورت تھی تو ریزرویشن پر خاموشی کیوں تھی؟ اس وقت کیوں نہیں آواز بلند کی گئی؟انہوں نے مزید کہا سب کمیٹی نے چھ مہینے میں اپنی رپورٹ پیش کی، اگر ہمیں وقت ضائع کرنا ہوتا تو اور چھ مہینے لگا دیتے۔ کابینہ نے رپورٹ قبول کر کے اسے محکمہ قانون کو بھیج دیا ہے۔ریاستی درجے کی بحالی پر انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے کہاہم انتظار کر رہے ہیں کہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر انہوں نے اسرائیلی حملے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اگر ایران نیوکلیئر پروگرام میں شامل نہیں، تو حملہ کیوں ہوا؟اور ایران میں پھنسے 1600 کشمیری طلبا کے تحفظ پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور کے حالیہ بیان کے بارے میں پوچھنے پر عمر عبداللہ نے مختصر جواب دیاکہ یہ کانگریس کا اندرونی معاملہ ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔