کشمیر میں مضر صحت اور سڑے ہوئے گوشت کی بھرمار

کشمیر میں مضر صحت اور سڑے ہوئے گوشت کی بھرمار

ندیم خان

کیا یہ کارروائیاں صرف ایک ہفتے تک ہی محدود تھیں: بازاروں میں سڑے ہوئے گوشت کی بھرمار: زمہ دار کون؟
جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑا ہوے اور بدبودار گوشت، جس میں ریڈی میڈ کباب، رستے اور گوشتابے برآمد ہونے سے وادی کشمیر کے لوگوں میں تشویش لہر پائی جا رہی ہے۔ آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وادی کشمیر میں بہت زیادہ مقدار میں گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے اور لگ بھگ یہاں 61000 ٹن گوشت کا سالانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ہوٹلوں، ریڈیو اور ریستورانوں میں جان لیوا پکوانوں کے نظر آنے سے عوام الناس میں یہ باتیں کردش کررہی ہیں کہ کیا کشمیر میں آئے دن بڑھتی ہوئی بیماریوں کی وجوہات میں ریڈی میڈ پکوان بھی ایک بڑی وجہ تو نہیں ہے۔ کشمیر میں گلے سڑے ہوئے گوشت کو بیچنے کا ایک خطرناک سکینڈل کا پردہ فاش کردیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سے تین ہفتوں میں وادی کشمیر مختلف علاقوں سے سڑے ہوئے گوشت کو ضائع کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پچھلے 6 دنوں کے دوران تقریباً 7000 کلو گرام سے زائد سڑے ہوئے گوشت جن میں کباب، گشتا بے، چکن و غیره فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ضائع کردیے گئے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران سرینگر، گاندربل، بارہمولہ، شوپیان، بانڈی پورہ اور اننت ناگ میں تقریباً 3200 کلو گرام سڑا اور بدبودار گوشت، گوشتابے، کباب، رستے وغیرہ ضبط کئے گئے۔ وہیں ہم نے اس حوالے سے فوڈ سیفٹی آفیسر گاندربل شیخ عباس سے بات کی تو انہوں نے کہا محکمہ فوڈ سیفٹی، ناپ تول اور محکمہ خوراک و شهری رسداد نے مشترکہ کار روائی کے دوران 150 کلو گرام گوشت ضبط کرکے ضائع کر دیا اور چھوٹے ریستورانوں پر صفائی نہ رکھنے کی پاداش میں 700 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ہم‌ نے مشہور و معروف معالج اور قلمکار ڈاکٹر نصار احمد ترالی سے بھی بات کی تو انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں سڑے بدبودار گوشت کی برآمدگی یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے اور بحثیت ایک معالج کے میں یہ مشورہ دوں گا کہ گوشت کا استعمال کم سے کم کیا جائے تاکہ آئے روز بیماروں سے ہم خود کو اور دوسروں کو بچا سکے۔ انہوں نے مزید کہا سڑ ے ہوئے گوشت سے انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتا ہے، وادی کشمیر میں کینسر جیسی جان لیوا بیماری کا عام ہونا یہ اشارہ کرتا ہے کہ ہم بنا تحقیق کے سڑے ہوئے گوشت، چکن اور مچھلیوں کا استعمال کس حد تک کرتے ہیں اسلیے اگر ہمیں ان بیماریوں سے محفوظ رہنا ہے تو ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ وادی کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے بازاروں میں سڑے ہوئے بدبودار گوشت کی فراہمی کو لیکر شکایات موصول ہو رہی تھیں تاہم اب حقیقت سامنے آنے کے بعد عوامی شکایات کی تصدیق ہوئی ہے اور جو بھی کاروائی جموں و کشمیر، فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ، یا پھر میونسپل کونسل کی جانب سے کی گئی ہے وہ ایک اچھی پہل ہے لیکن اب یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ آخر یہ سڑا ہوا مہینوں پرانا گوشت کہاں سے آرہا ہے اور اس کو عام لوگوں کو کون فراہم کر رہا ہے، ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کیونکہ ایسے ہی بڑی خاموشی سے عوام کی جانوں کے ساتھ یہ گوشت مافیا کھیل رہے ہیں، اور بڑی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ مجھے جو لگتا ہے وادی کشمیر میں جس بڑے پیمانے پر نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے وجوہات سالوں سے سڑے ہوئے گوشت کا بے تحاشا استعمال ہی ہے۔ اس دوران عالم دین مولوی قطب الدین کا یہ ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے بازاروں میں مضر صحت گوشت کی فراہمی کی اصل وجہ خوف خدا اور تصور آخرت نہ ہونا ہے انہوں نے مزید کہا کہ ہر مزہب دھوکہ دہی، چاپلوسی، مکاری اور جعلسازی کے خلاف ہے اسلیے ان چیزوں کا ہونا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے، سماجی سطح پر بھی اس بدعت پر قابو پانے کے لیے اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ وہیں کمشنر فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ سمیتا سیٹھی نے دعوت نیوز دہلی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وادی کشمیر میں سڑا ہوا گوشت ملنے کے بعد محکمہ فوڈ سیفٹی نے اپنی مہم میں اور تیزی لائی ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم نے ایک دو مہینے قبل فوڈ بنانے والے لوگوں کیلئے ایک اہم جانکاری کیمپ کا انعقاد کیا تھا اور اس میں سب لوگوں کو صاف صاف بتایا گیا تھا کہ پروسڈ فوڈ چاہئے وہ وازوان یا اور کوئی چیز ہو، کو کیسے سٹور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کو پہلے ہی بتادیا گیا تھا کہ قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے تمام کاروباریوں کو پہلے ہی یہ بتایا گیا تھا کہ فوڈ پیکٹ پر تاریخ، معیاد ختم ہونے کی تاریخ، بیچنے والی کمپنی کا نام ، سٹوریج کی تاریخ سمیت دیگر تفصیلات ہونا لازمی ہے چاہے وہ گوشت، چکن، مچھلی یا پھر اور کوئی خانے پینے کی اشیاء ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ تربیتی پروگرام ختم ہونے کے ایک ماہ بعد ہم نے ان کا جائزہ لینے کیلئے مختلف ٹیمیں بنا کر وادی کشمیر میں جگہ جگہ خصوصی مہم شروع کی جس دوران ہمیں مختلف علاقوں میں 7000 کلو گرام سڑا ہوا گوشت ملا۔ اس دوران ہمیں مہینوں تک سٹور کیے ہوئے بدبودار سڑے ہوئے گوشت پر کسی کی مہر، نہ لیبل اور نہ ہی دیگر کوئی نشان ملا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ وادی کشمیر کے تقریباً ہر ضلع میں سڑے ہوئے گوشت کے انبار مل رہے ہیں۔ جو لوگ کارروائی سے بچنے کیلئے اب سڑکوں اور ندی نالوں میں پھینک کر ان کو گندا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ اس معاملے میں ابھی سڑا ہوا گوشت وادی کشمیر بیچنے والوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے، کیونکہ گوشت کے ڈبوں پر کوئی لیبلنگ سیل یا پھر نشان نہیں ہے۔ کشمیر کی عوام اس امید میں ہے کہ یہ سڑا ہوا گوشت کشمیر میں لانے والوں کا پتہ ہر حال میں لگایا جانا چاہیے۔ تاکہ کسی گوشت مافیا کو کسی بھی صورت میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ واضح رہے کہ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ وادی کشمیر میں یہ دھندا جسے اب گوشت مافیا کا نام دیا جارہا ہے گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا تھا اور کسی کو بھی اس بارے میں کانوں کان خبر تک نہیں تھی۔ تعجب تو یہ بھی ہے کہ یہ سب انتظامیہ کی ناک کے نیچے سے بہت تیزی سے آگے بڑھتا چلا جارہا تھا، لیکن محکمہ فوڈ کی غفلت شعاری کی وجہ سے ابھی تک لاکھوں لوگوں کی جانوں سے کھیلا گیا۔ گُزشتہ کئی ہفتوں میں وادی کشمیر کے زکورہ میں 1300، بارہمولہ 560، بانڈی پورہ 670، اننت ناگ 400، پلوامہ 50، کاکہ پورہ 400، نوگام 1100، لسجن 120، صفاکدل 2500 کباب، پارمپورہ 200، گاندربل 150، اور سرینگر میں 350، کلو گرام غیر معیاری سڑا ہوا گوشت ضبط کیا گیا۔ اس حوالے سے ہم نے بارہمولہ میں عام ریڈی والوں سے بات کی جو ہر روز اپنی ریڈی لگا کر چکن، رستے، گوشتابے، کباب، مچھلیاں، روگن جوش اس کے علاوہ اور بھی مختلف اقسام گوشت سے تیار شدہ چیزیں بیچتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ کہا سے یہ گوشت لاتے ہیں اور یہ کتنا پرانا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے جانور کو حلال طریقے سے زبح کرکے پھر اس گوشت کی مختلف چیزیں بناکر بیچتے ہیں۔ ہم شام کے وقت یہ سب تیار کرتے ہیں اور پھر صبح سویرے اپنی ریڈی لگا کر اس کو بیچتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا مال پورا دن میں ختم ہو جاتا ہے، اس لیے ہم کو گوشت کو سٹوریج کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور جب سے سڑے ہوئے گوشت کا معاملہ کشمیر میں سامنے آیا ہے تب سے ہمارا کاروبار بھی رک گیا ہے کیونکہ کہ اب لوگوں میں ڈر کا ماحول ہے کوئی بھی شخص پکا ہوا گوشت ہم سے خریدنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر انتطامیہ جلد از جلد اس گوشت مافیا کا پردہ چاک کرے تاکہ یہ بتا لگ سکے کہ آیا یہ سڑا ہوا گوشت آخر کہاں سے آ رہا تھا۔ تاکہ ہم بھی اپنا کاروبار دوبارہ سے شروع کرسکیں۔ وہیں اس حوالے سے میر واعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے وادی کشمیر میں سڑے گلے گوشت کی بھاری تعداد دیکھ کر شدید تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فوری طور پر اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے اور سخت کارروائی اور معاشرتی احتساب کرے۔ تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میر واعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ کشمیر میں فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کی کارروائی کے دوران 4,300 کلو گرام سے زائد بغیر لیبل، مشتبہ، نشان اور گلے سڑے بدبودار گوشت کی ضبطی نہ صرف عوامی اعتماد کے ساتھ سنگین خیانت ہے بلکہ یہ شریعت، سماجی اقدار اور ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عوام کو حرام یا مضر صحت سڑے گلے گوشت کھلانا ظلم ہے اور اس گھناؤنے مافیا میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق فوری اور سخت سے سخت طرسزادی جانی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کی بڑی وجہ انتظامیہ کی غفلت تو نہیں ہے۔ کیونکہ وادی کشمیر میں اس حوالے سے قوانین تو بہت ہی سخت ہیں لیکن ان قوانین پر پوری ایمانداری سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ بوسیدہ سڑا ہوا گوشت بیچنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں ان کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہیں عوام میں بھی آگاہی کی کمی دیکھائی دے رہی ہے۔ عام لوگ صرف اور صرف قیمت دیکھ کر گوشت خرید لیتے ہیں، یہ گوشت کتنے عرصے کا ہے توجہ نہیں دیتے۔
اس پیچیدہ مسلے کا تدارک میری اور آپ لوگوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اس کے لیے جموں و کشمیر کی ایل جی انتظامیہ، غیر سرکاری اداروں اس کے ساتھ وادی کشمیر کے پورے عوام کو مل کر اس سنگین مصیبت سے نجات دلانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس سڑے ہوئے اور بوسیدہ گوشت کے اس جان لیوا مافیا کا پردہ چاک کرنے کے لئے ایک یا دو ہفتوں کی یہ مہم کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس فعل کی ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ اور متعلقہ محکمہ خصوصاً کشمیر فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کو چاہئے کہ وہ ایک واضح اور بامقصد حکمت عملی کو اپنائیں۔ اور اس معل میں جو بھی افراد ملوث ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔