کشمیر میں اسمارٹ سٹی کے نام پر جو منصوبے شروع کیے گئے، وہ عوام کے لیے سہولت کے بجائے مصیبت بن گئے ہیں۔ جہاں نئی سڑکیں اور فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں، وہاں معمولی سی بارش بھی شہریوں کے لیے آفت ثابت ہوتی ہے۔ گھنٹوں کی بارش نہیں، بلکہ چند لمحوں کی بارش بھی سڑکوں کو دریا اور گلیوں کو جھیل میں بدل دیتی ہے۔
یہ کس قسم کی ترقی ہے جس میں نکاسیٔ آب کا کوئی انتظام نہیں؟ حکومت نے اربوں روپے سڑکوں کو کھودنے، دوبارہ بچھانے اور مرمت کرنے پر خرچ کر دیے، مگر عوام کو گڑھے، پانی اور کیچڑ کے سوا کچھ نہ ملا۔ پہلے پرانی سڑکیں کم از کم بارش کو سہہ لیتی تھیں، اب نئی تعمیرات نے حالات بدتر کر دیے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ ترقی کے نام پر اگر عوام کی روزمرہ زندگی اجیرن ہو جائے، تو ایسی ترقی کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ اسمارٹ سٹی کے دعوے تبھی حقیقت بن سکتے ہیں جب منصوبہ بندی میں عوامی سہولت کو اولین ترجیح دی جائے، اور ان منصوبوں پر لگنے والے پیسے کا صحیح اور شفاف استعمال کیا جائے۔ ورنہ یہ “اسمارٹ سٹی” آنے والی نسلوں کے لیے بوجھ بن جائے گی۔
