وادی کشمیر ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، اور درجہ حرارت میں لگاتار اضافے کے ساتھ ہی پینے کے پانی کی قلت نے ایک سنگین رخ اختیار کر لیا ہے۔ جنوبی، وسطی اور شمالی کشمیر کے درجنوں علاقوں میں عوام پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ جل شکتی محکمہ، جس کا کام عوام کو صاف پانی فراہم کرنا ہے، مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ عوامی شکایات اور دہائیوں کے باوجود نہ کوئی سنوائی ہو رہی ہے، نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا جا رہا ہے۔حیران کن طور پر، اگرچہ ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہے، مگر گھروں تک اس پانی کو پہنچانے والی اسکیمیں یا تو بیکار پڑی ہیں یا نا مکمل ہیں۔ کئی دیہی علاقوں میں لوگ تین تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے نالوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ واٹر سپلائی اسکیمیں مرمت طلب ہیں، مگر محکمہ کی بے حسی اس حد تک ہے کہ متاثرہ علاقوں کو متبادل کے طور پر ٹینکروں کے ذریعے بھی پانی فراہم نہیں کیا جا رہا۔جنوبی کشمیر میں پانچ برس قبل شروع کی گئی لفٹ واٹر سپلائی اسکیم آج بھی ادھوری ہے۔ منصوبے کا کام سست روی کا شکار ہے، اور متعلقہ محکمہ اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو آلودہ اور غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے، جو صحت عامہ کے لیے خطرناک ہے۔صورتحال اس وقت اور بھی نازک ہو جاتی ہے جب ہم زرعی شعبے پر نظر ڈالیں۔ ان دنوں دھان کی پنیری کھیتوں میں منتقل کی جا رہی ہے، مگر اریگیشن محکمہ نے کسانوں کو آبپاشی کے لیے پانی مہیا نہیں کرایا۔ نتیجتاً، کھیت خشک پڑے ہیں، اور کسانوں کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ وقت پر ندی نالوں کی صفائی اور مرمت نہ ہونے کے باعث نہری نظام درہم برہم ہے۔یہ تمام تر صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی میں سرکاری محکمے مکمل طور پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر بروقت اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران صرف کسانوں اور دیہی آبادی تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ پانی زندگی ہے، اور اس کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔
