ٹرمپ کا ایران سے ’غیرمشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ

ٹرمپ کا ایران سے ’غیرمشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ

اسرائیل ۔ ایران جنگ کا چھٹواں روز ، تل ابیب میں مسلسل دھماکوں کی آوازیں

واشنگٹن /سیاست// اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھٹے روز میں داخل ہو گئی ہے اور دونوں نے ایک دوسرے پر مزید حملے کیے ہیں جبکہ امریکی صدر نے ایران سے کہا ہے کہ ’وہ غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈال دے۔‘برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ چہارشنبہ کو علی الصبح ایران کی جانب سے میزائل فائر کیے گئے جس کے بعد تل ابیب میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، تاہم مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔اسرائیل کی جانب سے تہران کے شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ شہر کو خالی کر دیں تاکہ اس کی ایئر فورس عسکری تنصیبات پر حملے کر سکیں۔ایران کی نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ رات گئے تہران اور کاراج شہر کے مغربی حصے میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں خبردار کیا کہ ’امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایران کے رہنما کو فی الحال قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘ان کے اس تبصرے سے ایران کے بارے میں امریکہ کا جارحانہ موقف دکھائی دیتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ جنگ میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے۔انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے لکھا کہ ’ہمیں بالکل یہ معلوم ہے کہ وہ کہاں چھپے ہیں، ہم ان کو نشانہ نہیں بنا رہے، کم از کم وقتی طور پر، تاہم ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے۔‘اس پوسٹ کے تین منٹ کے بعد انہوں نے ایک اور پوسٹ کی جس میں صرف یہ لکھا گیا تھا کہ ’غیر مشروط سرینڈر۔‘وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی۔امریکہ کے قریبی اتحادی اسرائیل اور اس کے دیرینہ دشمن ایران کے درمیان تنازع کے بارے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے بسا اوقات سامنے آنے والے متضاد اور مبہم بیانات نے بحران کے گرد غیریقینی کی فضا کو گہرا کر دیا ہے۔ عوامی سطح پر سامنے آنے والے ان کے تبصروں میں فوجی دھمکیوں سے لے کر سفارتی اقدامات دکھائی دیتے ہیں، تاہم یہ ان کے غیرمعمولی بات اس لیے نہیں ہے کہ وہ پہلے سے ہی خارجہ پالیسی کے ضمن میں بے ترتیب اپروچ کے لیے جانے جاتے ہیں۔اسرائیل ایران جنگ میں شدت آنے کے باعث امریکی صدر جی سیون کا اجلاس چھوڑ کر ایک روز قبل ہی امریکہ روانہ ہو گئے تھے تاہم اس کے بعد ہونے والے سیشن میں برطانوی رہنما کیر سٹارمر کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی اشارے نہیں کہ امریکہ جنگ میں شامل ہونے والا ہے۔وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کینیڈا سے واپسی پر منگل کو قومی سلامتی کونسل کے حکام سے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی جنگ کے حوالے سے بات چیت کی گئی، تاہم مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔امریکہ کے تین سرکاری عہدیداروں نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں مزید لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے جبکہ دیگر جنگی جہازوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔امریکہ کی جانب سے اسرائیل ایران جنگ کے دوران ابھی تک صرف دفاعی اقدامات ہی کیے گئے ہیں جبکہ میزائلوں کو گرانے میں اسرائیل کی مدد بھی کی ہے۔