واٹس ایپ پر مذہبی نفرت پھیلانا جرم، الہ آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ

لکھنؤ/ایجنسیز// واٹس ایپ پر کسی خاص مذہب کو نشانہ بنانے والا پیغام بھیجنا اب فرقہ پرستوں کو جیل بھیج سکتا ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا ہیکہ واٹس ایپ پر کسی خاص مذہب کو نشانہ بنانے والی پوسٹ شیئر کرنا جرم ہے۔ ایسا کرنے پر مذہبی برادریوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے الزام میں کارروائی ہو سکتی ہے۔ یہ فیصلہ بی این ایس کی دفعہ 353 (2) کے تحت کیا گیا ہے۔ آفاق احمد نامی ایک شخص نے اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر واٹس ایپ پر اشتعال انگیز پیغامات بھیجنے کا الزام تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنایا۔اس شخص نے کہا تھا کہ اس کے بھائی کو جھوٹے مقدمے میں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے، کیونکہ وہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اپنی پوسٹ میں صرف اپنے بھائی کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ پیغام میں بظاہر مذہب کا ذکر نہ ہونے کے باوجود، اس میں ایک پوشیدہ پیغام تھا کہ اس کے بھائی کو خاص مذہب سے تعلق کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ پیغام مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ ایسے پیغامات سے مذہبی برادریوں کے درمیان دشمنی، نفرت اور غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لوگوں کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ انہیں قانون کے عمل کا غلط استعمال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ کسی خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے پیغام بھیجنا بھارتی نیائے سنہتا کی دفعہ 353 (2) کے تحت آتا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کی ایف آئی آر منسوخ کرنے کی درخواست کو خارج کر دیا۔واضح رہے کہ واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف فرقہ پرست طاقتیں انتہائی نفرت انگیز و اشتعال انگیز مہم چلارہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت کے فیصلہ کے بعد اس طرح کے مواد پر حکومت اور پولیس کی جانب سے کاروائی ہوگی؟ یا کپڑے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کی جائے گی۔