کشمیر میں اگلے 20برسوں میں لوگوں کو رہائشی کیلئے جگہ دستیاب نہیں ہوگی جبکہ قبرستان کیلئے بھی جگہ ملنے مشکل ہوجائے گی ،وادی کشمیر، جو کبھی سرسبز و شاداب بستیوں، کھیتوں اور قدرتی حسن کے لئے مشہور تھی، آج ایک سنگین بحران کی دہلیز پر کھڑی ہے — زمین کے بحران کی۔یہ حقیقت اب چھپائی نہیں جا سکتی کہ وادی کے رہائشی علاقوں کو بڑے پیمانے پر تجارتی مراکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ مکانات، جو کبھی خاندانی سکون کا مرکز تھے، اب تیزی سے شاپنگ مالز، ہوٹلوں اور دکانوں میں بدل رہے ہیں۔ خاص طور پر سرینگر اور دیگر شہری علاقوں میں مالدار طبقہ زمینوں کو خرید کر کمرشل مراکز میں تبدیل کر رہا ہے۔ یہ رجحان جہاں ایک طرف شہروں کی شکل و صورت بدل رہا ہے، وہیں دوسری طرف متوسط اور غریب طبقے کے لیے ایک سنگین بحران کھڑا کر رہا ہے۔رہائش بنیادی انسانی ضرورت ہے، لیکن جب یہ بھی اشرافیہ کی عیاشی بن جائے اور عام انسان کے لیے خواب بن جائے تو معاشرتی ڈھانچے کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف رہائشی جگہ محدود ہو رہی ہے، بلکہ قبرستانوں، پارکوں اور عوامی سہولیات کے لیے مختص زمینیں بھی تجارتی مقاصد کی نذر ہو رہی ہیں۔ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر زمین کے اس غیر متوازن استعمال پر بروقت روک نہ لگائی گئی، تو کشمیر کی آئندہ نسلیں ایک ایسی وادی میں زندگی گزاریں گی جہاں نہ سانس لینے کو کھلی جگہ ہوگی، نہ دفن ہونے کو زمین۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک جامع زمین پالیسی وضع کرے جس میں رہائشی، زرعی، تجارتی اور قبرستانی زمینوں کی واضح تقسیم ہو۔ لینڈ یوز (Land Use) پلاننگ کو مضبوط بنانا، غیر قانونی تبدیلیوں پر روک لگانا اور زمینوں کی خرید و فروخت پر نگرانی بڑھانا اب محض سفارشات نہیں، ناگزیر اقدامات ہیں۔عوامی شعور کی بیداری بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ ہر فرد، ہر خاندان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ زمین، خصوصاً رہائشی اور عوامی سہولتوں کے لیے مختص زمین، صرف سرمایہ کاری کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی بقا کا ضامن ہے۔اگر ہم نے آج ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر کے آسمان تلے زمین صرف چند ہاتھوں میں ہوگی — اور باقی صرف آسمان تکتے رہ جائیں گے۔
