editorial

نظامِ تعلیم کے خاموش سپاہی، نجی اساتذہ کی زندگی کا سچ

ہم اکثر تعلیمی نظام میں طلباء کے مسائل، ان کے دباؤ، فیسوں کے بوجھ اور امتحانات کے ناقابلِ برداشت دباؤ پر بات کرتے ہیں، اور کرنا بھی چاہیے۔ مگر آج ایک اور پہلو پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے – وہ خاموش کردار جو ایک استاد کا ہوتا ہے، خاص طور پر نجی اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کا۔
نجی اسکولوں کے اساتذہ صرف پڑھانے کا کام نہیں کرتے، وہ اپنے پیشے میں ایسی قربانیاں دیتے ہیں جن کا اندازہ شاید باہر سے دیکھنے والا نہ لگا سکے۔ ان کی ذاتی زندگی، حتیٰ کہ صحت بھی اکثر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ ہفتہ وار تعطیل بھی اسکول’ضرورت‘ بن کر چھن جاتی ہے۔ اتوار کے دن اگر اسکول کا کوئی پروگرام ہو، یا کوئی’اہم‘ میٹنگ ہو، تو استاد کی موجودگی لازمی قرار دی جاتی ہے۔
امتحانی نظام ہو، رپورٹس کی تیاری ہو، والدین اساتذہ ملاقاتیں (PTMs) ہوں یا کسی طالب علم کے کھانے کا وقت – استاد ہر مقام پر موجود ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف تعلیم دیتا ہے، بلکہ بچوں کے نفسیاتی، جذباتی اور سماجی معاملات میں بھی پیش پیش رہتا ہے۔
اس کے باوجود اسکول انتظامیہ کی سختیاں، غیر لچکدار رویے اور ناقابلِ قبول پالیسیز استاد کے وقار اور آرام کو مسلسل مجروح کرتی ہیں۔ چھٹی لینا ایک جنگ جیتنے کے مترادف ہوتا ہے، اور اگر کبھی کسی ایمرجنسی میں ایک آدھ دن کی رخصت مل بھی جائے تو تنخواہ میں کٹوتی استاد کا مقدر بن جاتی ہے۔
یہ وہی استاد ہے جس پر والدین بھروسا کرتے ہیں، جسے طالب علم اپنا راہنما سمجھتے ہیں، اور جس کی محنت پر کسی قوم کا مستقبل کھڑا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس، وہ خود اس نظام میں سب سے کمزور کڑی بن کر رہ جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صرف طلباء کے نہیں، بلکہ اساتذہ کے حقوق، ان کے آرام، ان کی صحت اور ان کے سماجی تحفظ کے لیے بھی آواز بلند کریں۔ استاد کی عزت صرف یومِ اساتذہ پر ایک پھول دے کر یا شکریہ کہہ کر ادا نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں ان کے حالاتِ کار، اوقاتِ کار، اور تنخواہوں کے نظام پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اُن ہاتھوں کو سراہیں، جو نسلوں کی تقدیر سنوارنے میں اپنی خوشیاں، فرصتیں اور شناخت تک قربان کر دیتے ہیں، اور وہ عزت دیں جو وہ برسوں سے خاموشی سے سمیٹنے کے بجائے بانٹ رہے ہیں۔