چودھری قاضی نثار چہیچی
سالارِ عشق محب اولیاکرام حضرت مولانا جلّال الدّین رومیؒ ایک ایسے برگُزیدہ شخصیت کے مالک ہیں جنہوں نے امت مُسلمہٕ کے لیے مثنوی شریف لکھ کر امت مُسلمہٕ کو ایک ایسا تعفہٕ بخشا جو ان کے لے راہ مَشعل کا کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ عملی حرارت پیدا کرنے والی ایک ایسی چنگاری ھے جو اپنی ابتدای تخلیق سے تا ہنوز جاری وساری سلگ رہی ھے جس سے ہر کوی بشر اپنی عقل و فہم کے مطابق حرارت حاصل کررہا ھے۔اسی لامثال اور لازوال تصّنیف کی وجہ سے آپؒ پوری دنیا میں مشہور و معروف ہوے۔آپؒ کی مثنوی شریف امت مسلمہٕ کے دلوں میں جگہ بنای ہوی ھے جس کا تذّکرہ ہر کوی مولوی حضرات اپنی اپنی تقریروں میں کرتا ھےجب تک مولوی حضرات مثنوی شریف کا شعر نہ پڑھ تب تک اس کو اپنی تقریر ادھوری لگتی ھے۔آپ کی مثنوی شریف امت مسلمہ کی مشہورکتابوں میں سے ایک ھے اور اس کے علاوہ یہ رُوحانی حلقوں میں بھی بہت ہی بُلند مقام کی رکھتی ھے۔اگر غور دیکھا جاےمثنوی معنوی ایک ایسی تخلیق ھے جس نے عالم اسلام کے افکار و ادبیات پر بہت گہرا اثر ڈالا ھے اگر چہ عالم اسلام میں ایسی بہت ساری شادر ونادر کتابیں ملیں گیں جنہوں نے دین اسلام کےوسیع حلقہ کو بہت ہی تویل اور لمبے عرصے تک متاثر رکھا ان ہی میں سے ایک مثنوی معنوی شریف ھےجو چھ، سات صدیاں یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعددین اسلام کا ادبی،علمی اورعقلی حلقے اس کی شرین نغمات سے گونج رہےہیں جو دماغ کو روشنی اور دِلوں کو قُوت و حرارت بخش رہا ھے۔اس کے مزیّد یہ معلّمین اور متعکلمیّن کو اپنے زمانے کے سوالات و شک شبہات کو حل کرنے میں درکار آتی ھے۔ہر دور کےاہل علم، اہل معرفت اور اہل محبت نے اس عظیم تصّنیف کو ترجمان راہ اور شمع آنجمن بناکر رکھا ھے جس سے اہل دانشواروں کووقتاً فوقتًا ن مسائل، دلایل اور دلنشین مثالیں اور جوابات کی نئ راہیں ملتی رہیں ۔ یہ وہ عظیم اور لامثال تصّنیف ھے جس کے بارے میں قلندرِ لاہوری ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ یوں رقمطراز ھے۔
مثنوی و معنوی و مولوی
ھست قُران در زبانِ پہلوی
” اس کا معنی و مفہوم یہ ھے کہ مولانا رومیؒ کی مثنوی پہلوی زبان میں قران ھے”
اس میں مولانا رومیؒ نےاللّلہ پاک کی وحدانیت کا تذکرہ کیا ھے آپ ؒنے خُداوندکریم اور محمّدرسُول ﷺکے عشق میں ڈوب کر اپنی مثنوی کو ایک مکمل تصّنیف کی شکل دی۔آپ نے اپنی مثنوی شریف میں خُداوند کریم کی ذاتِ عظمت وبرتری کو اُجاگر کر کے پھرمحمّد مصطفےٰﷺ کے عشق میں اور اپنے آپ کو اپنی اصّلیت سے جُدا ھو کراپنےخیالات کا اظہار اس طرح کیا ھے۔
بشنواز نے چُوں حکایت می کُند
وز جُدا ہا شکایت می کُند
مثنوی شریف میں بہت سارے موضّاعت پر قلم اٹھایا گیا ھے جہان تک اولیّإ کرام کی شان کے بارے کی بات ھےاگر چہ ان کے بارے میں کوی مخصّوص باب درج نہیں ھے لیکن آپؒ کی اس عظّیم تصّنیف میں بہت ساری جگہوں پراولیإ کرام کی بُزرگی ،اُنکی کرامات، اورخُدا وند کریم کے پاک دربار میں اُن کی کیاشان اور مرتبہ ھے۔اُس کو بہت ہی خُوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ھے۔ایک جگہ پر یوں فرماتے ہیں۔”انبیإ اور اولیإ کی صحبت سے لوگ کامل بن جاتے ہیں،ان کی اتباع سے نجات حاصل ہوتی ھے،انکی ورد کی دوا سے خُدا کا دیدار ہوتاھے“آپ ؒ نے مثنوی شریف میں بار بار فرمایا ھے کہ اے لوگوں اللّہ پاک کے برگزیدہ بندوں اورولیّوں کا دامن پکڑو اور ان کو اپنا پیش وا یعنی رہنما بناو. جس کی وجہ سے انسان کی دنیا ہی بدل جاتی ھےاگروہ عام ہوتا ھےخاص بن جاتا ھے جس کا ثبوت ہمیں اس اشعار سے ملتا ھے۔
اگر تو سنگ خارہٕ مَرمَر شُوی
چون بہ صأحبِ دل رَسی گوہرشُوی
ترجمہٕ:اگر تم سخت پتھر ہو اولیإ کی صحبت میں بیٹھنے سے سنگ مرمر بن جاو گے۔جب تم صاحب دل کی صحبت میں پہنچھو گے توقیمتی مُوتی بن جاو گے۔۔
اسی طرع قلندر لاہوری ڈاکٹر سر محمّداقبال نے بھی اپنے ایک پیارے سے اشعار میں ان اولیّإ کرام اور اپنے برگزیدہ بندّوں کے مرتبےکو بُلند کرتے ہوے فرمایا ھے۔
اگر ہو درد دل کرے خدمت فقیروں کی
نہیں ملتے یہ جواہر بادشاہوں کے خزینوں میں
آپؒ نے اپنی اس مثنوی شریف میں اُمت مُسلمہٕ کو قُرب خُداوندی حاصل کرنےکا باربار درس دیا اور یہ بھی فرمایا یہ کس سےاور کیسے حاصل ہوگا وہ بھی واضّع طور پر فرمایا ھے کہ یہ انہی برگزّیدہ اور اولیّإ کرام کی مُحبت اور ان کےدربار سے ہی حاصل ہوگا اور یہ بھی فرمایا ان اولیإکرام کا دربار تمہارے لیے اس جہاں اور آخرت والیے جہاں کے لے فایدہ اور ثبوت مند ھے اس کے مزید الللّہ والوں کی بات آپ کو سکون قلب عطا کرتی ھےاور اس سے تمہیں قُربِ خُداوندی حاصل ہوگی جس کاثبوت مثنوی شریف کا یہ اشعار ھے۔۔
بندہ یک مرد رُوشن دل شَوی
بہ کہٕ برفرق سر شاہاں روَی
ترجمہ: کسی روشُن دل مرد کا خادم یعنی نوکر بن جانا بادشاہ کے درباری ہونے سے بہتر ھے۔دوسری جگہ مولانا جلالدّین رومیؒ فرماتا ھے کہ بندہ خدا کو چاہیے اپنے اندروں کو تبدیل کر کے اپنے دل میں عشق حضرت اللّہ اور عشق مصطفےٰﷺ پیداکراور یہ تب ہی ممّکن ھے جب تم اولیّإ کرام کی صحبت اختیار کرو گےاور یہ صحبت اختیار کرنے کیے لیے تُمہیں اگر کچھ بھی کرنا پڑھے در بدر بٹھکنا پڑھےانکو تلاش کرو کیونکہ ان کی نگاہ کرم سے تمہاری تقدیر ہی بدل جایے گی۔۔
دربدر می گرد ومیرد کوبکو
جستجوکن جستجوکن جستجکو
ترجمہ[:مرشد کامل کی صحبت کیلے۔]دربدرپھرکوچہ بکوچہ جا تلاش کر تلاش کر تلاش۔آپؒ ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ اللہﷻ کے کامّل ولیّوں یا پیروں کےدل پرنقشِ خُداوند ہوتا ھے اور مُرید کے دل پر پیر کا نقش اُبھرتا ھےاور دوسری جگہ پر آپؒ نے اولیا کرام کامُقام و رُتبہٕ بڑھاتے ہوےفرمایا ھے کہ اللہ کے ولیّوں کو رَب کی طرف سے بہت ہی طاقت ازن حاصل ھےکہ وہ کمّان سے نکلے ہوے تیر کو بھی واپس کردیتے ہی مولانا صاحب کو اولیاکرام کی کرامات پر بہت ہی یقین و بُھروسہ ھےآپؒ فر ماتے ہیں کہ برگزیدان اولیّإ کرام خُدا سے جُدا نہیں اور ہر گز ان کو خُدا سے جُدا مت سمجھو ان کو خُدا سے جُدا سمجھنے والیے کم فہم اور کم۔عقل ہیں اور اللہﷻ کے دربار میں ان کا بہت ہی بُلنداور عالٰی مُقام ھے جس تناظر میں اُنہوں نے ان کے بارے میں یہ اشعار فرمایا ھے۔۔
چوں جُدا بینی زحق ایں خواجہ را
گم کنی ہمٕہ متن و ہمہٕ دیباجہٕ را
ترجمہٕ:اگر تم مُرشد اور خُدا کو جُدا سمجھے گا تو سَمجھ لے تیری اصل کتاب بھی گیی اور اس دیباچہٕ بھی گیا۔۔اس بات کی طرف مولانا جلّال الدّین رومیؒ کے پیر حضرت شمّس تبرہزیؒ نے بھی اشارہ کرتے ہوے فرمایا ھے کہ”تم کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں خُدا کی نشانیاں دیکھٕ سکتے ہو کیونکہ خُدا صرف کسی مسّجد،مندّر یاکسی گرجے اورمصومعے تک محدود نہیں ھے لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہو خُدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈہو“
اللہﷻ کے پیارے اور برگزّیدہ ولیّوں کے دل اللہ پاک کے نّور سے منّور ہوتے ہیں اور جہاں یہ تشریف رکھتے ہیں وہاں بھی نورّانی اور پررونق محفل بن جاتی ھے اسی بات کی گوای ایک جگہ مولانا رومیؒ دیتے ہوےہوں فرماتے ہیں۔۔
نّور حق ظاہر بُود اندر ولی
نیک بین باشی اگر اہل دلی
آپؒ نے اولیإکرام کی محفلوں کی عظمت اور شان کو بیاں کرتے ہوے فرمایا ھے۔کہ ان کی صحبت تنہائی کی عبادت سے زیادہ فیض رساں ھے کیونکہٕ اہل اللّلہ کی صحبت اللّلہ کے قُرب کا سبب بنتی ھے اور اس کے مزیدیہ بھی فرمایا کیا تو یہ نہیں دیکھتا اولیإکرام کا قُرب سینکڑوں کرامتیں اور شان وشوکت رکھتا ھے۔جسکی گواہی مثنوی شریف کا یہ اشعار ھے۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریإ
ترجمہٕ:اولیا کی صحبت میں گزراہو ایک لمعہ سو سال کی بے ریإ عبادت سے بہتر ھے۔
آپ سب حضرات اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ مولانا جالاالدّین رومیؒ کاپیرومُرشد شمّس تبریزیؒ تھا جو وقت کے بہت بُلندپایہ کے ولی کامل تھا آپ نے انہی کی مثال دےکر اولیاکرام کی کرامات اس قدر فرامای کہ میں کچھ نہ تھا میں ایک عام مولوی تھا جب میرےرہبر و مرشد سمّش کی نگاہ مجھ پر پڑھی تب سے میں مولوی نہیں مولاے روم بن گیا۔ جس کی شہادت مثنوی شریف کا یہ اشعارفرمارہاھے
مولوی ہرگزنہ شُد مولاے روم
تا غلام شمّس تبریزؒ نہ شُد
آپؒ کو اپنے مُرشد کے ساتھ بہت ہی عقیدت ومُحبت تھی جس کی بنا پر آپؒ نے اپنا کلام کا دیوان ہی اُن کے نام مَنسوب کیا جس کانام” دیوان شمّس تبریزؒ“ آپؒ نے اپنے کلام میں کہیں جگہوں پر انکی ہجروجُداہی کا ذکر بھی کیا ھے آپؒ فرماتے کہ سالک اور مُرشد کا رشتہٕ روح اور جسم کا رشتہٕ ھوتاھے۔اور روح کی تازگی مُرشد کا دیدار ہوتا ھے اور اللّلہ پاک نہ کر اگر مُرشد ناراض ہو جاے سالک کے دونوں جہاں برباد ہوجانے کا خطرہ ہمیشہ مُرشد کو راضی رکھو کسی نے کیا خوب فرمایا ھے۔۔۔۔
قَہر اولیاقہر الیٰ
مَہر اولیامہرالیٰ
اب میں اپنا موضّوع کومکّمل کرتے ہوے یہی کہوں گا میراللہ پاک ہم سب کواپنے پیارے مصطفٰےﷺ ،پیارےصحباے کرام اور پیارےاولیإے کرام کاعشق عطا فرماے آمین ثماآمین