حسن ساہوؔ
رحمت عالم۔ مرشد دوران
پیغمبر ہرانس وجان۔ نور شعور وآگہی
وہ مبشر۔ وہ نذیر
شافی امراض جہاں
افتخار عالم کُل
رحمت للعالمین
آں امام اولین شاہ امم
ہادی عالم۔رسول آخری
ساقیٔ کوثر۔ جیب کبریااور
آقائے ختم المرتبت حضرت محمدﷺ کی سیرت پاک پر دنیائے آب وگل کے ہزاروں دانشوروں اور قلم کاروں نے مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں تحریر کرکے شایع کردیں ہیں۔ محبوب خدا ﷺ نے چودہ سو برس قبل مشیت ایزدی کے تحت اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی داغ بیل مکہ اور مدینہ کے نخلستان میں ڈال دی۔ خلوص،رواداری اور اخلاقی ڈگر پر گامز سرورکائنات ﷺنے لوگوں کو راہ راست اختیار کرنے کی باپت ایک لائحہ عمل پیش کیا جو رہتی دُنیا تک مینارۂ ہدایت کی صورت میں زندہ جاوید رہے گا۔دراصل بشریت کی تاریخ میں پروردگار عالم نے ایسی نورانی ہستیوں کو اس زمین پر اپنے نبی اور رسول بنا کر بھیجا جن کا کام انسانوں کو راہ راست سے آگاہی دلانا تھا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ہزاروں انبیاء رسول بنا کر بھیجے گئے۔ ان کا مشن ایسے انسانوںکو ہدایت دینا تھا جو قلب ودماغ تو رکھتے تھے لیکن صحیح طور سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ ان کے پاس کان ضرورتھے لیکن سماعت کی صلاحیت سے معزور، ان کی آنکھیں تو تھیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ حضرت محمدمصطفی ﷺ ایسے ہی نورانی شخصیتوں کی آخری کڑی ہے ۔ ان کی رسالت تمام انبیائے کرام سے زیادہ وسیع ہے۔ محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں جنہوں نے تمام انبیاء کے پیغامات کو یکجا کرکے دم سکت نہ پڑنے والا دستور العمل پیش کیا۔
سرزمین حجاز سے بلند ہونے والے نصرۂ توحید سے تنہا عرب قوم کی اصلاح مقصودنہ تھی بلکہ اس عظیم تحریک کے علمبردار نے سرزمین حجاز سے اپنی عالمی رسالت کا آغاز فرمایا۔ انہیں پروردگار رحمن ورحیم نے رحمتہ للعالمین کی بابرکت خلعت عطا کردی تھی۔ پورے عالم انسانیت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر تھی۔ اس طرح دشمنان اسلام اور مشرکین کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ اس اسلامی تحریک کی کوئی انتہا نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیانے دیکھا کہ۲۳برس کے قلیل عرصہ میں مدینے کی شاہراہوں اور گلیوں سے اسلام کے قافلے ساری دُنیا میں پھیلتے گئے۔دین اسلام زندہ جاوید ہوگیا اور اسی اسلام کے سامنے دنیا کے تمام انسان سر تسلیم خم کردیں گے۔
حضرت محمدﷺ سے پہلے عرب قوم کے قبیلوں کا مجموعہ تھی۔ منتشر وبکھری ہوئی۔ ایک مختصر مدت میں اعلیٰ اخلاقی وانسانی قدروں کو بروئے کار لاکر اللہ کے آخری پیغمبرﷺ نے انسانیت کو سچائی اور راست کرداری کادرس دیا۔
دُنیا کی مشہور ہستیوں نے فوج، قانون اور سلطنتیں تشکیل دیں۔ مال ودولت سے ہر طرح کی قوت حاصل کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جاہ وجلال ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہوگیا۔ اللہ کے آخری نبیﷺ نے فوجیں،قانون،سلطنتیں،خاندان اور قوموں کو ایک نیا رُخ دیا بلکہ کروڑوں بندگان خدا کو انکے خدائوں کو، ان کے مذہبوں کو فکروسوچ کو بلکہ ان کے ایمان اور روحوں کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا۔ یہ حضور نبی کریم ﷺکی عظیم شخصیت ہی تھی جسے غیر مسلم تاریخ دان بھی دُنیا کی تاریخ کی بلند مرتبت شخصیت مانتے ہیں۔اس عظیم عارف ربانی شخصیت نے مسلسل۲۳برس فتنہ وفساد، کفر وشرک، بُت پرستی اور جبروتشدد کے خلاف ایسی جدوجہد جاری رکھی جو کسی بھی دوسری شخصیت کیلئے یقینا حوصلہ شکن مرحلہ ثابت ہوتا۔آپ کی یہ کوشش رہی کہ خداوند کریم کی اطاعت وبندگی کے سلسلے میں اپنی ذات مقدس کو مثالی امت مسلمہ کے روبروانسان کامل اور اعلیٰ کرداری کا مالک ہونے کی حیثیت سے پیش کریں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محمدمصطفیٰ ﷺکی سیرت، سنت اور حدیث کا سرچشمہ قرآن مجید ہے، جواب بھی امت مسلمہ کے پاس ہدایت وسعادت کی غرض سے بطور یاد گار محفوظ ہے ۔آج دُنیا کے تمام مسلمان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے جو دین اختیار کرلیا ہے ،جن کے احکامات کے سامنے وہ سر تسلیم خم کرتے ہیں اور جس مذہب کے وہ پابند ہیں اس کے آخری پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفی ﷺ ہیں۔آنحضور ﷺنے نہ صرف گزشتہ آسمانی مذاہب کی تکمیل فرمائی اور اپنے سے قبل کے انبیاء کے صادق ہونے کی تائید کی بلکہ توحید انتہائی کی پابندی کیلئے بھی ارشاد فرمایا۔ قرآن مجید کے روپ میں ایک حتمی دستور العمل اللہ کی جانب سے پیش کیا۔ یعنی حق وباطل، صحیح وغلط،اچھائی وبرائی اور الفت وکدورت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا کرنے والی آسمانی کتاب:
قرآن مجید دراصل ایک ایسا آئینہ ہے۔ جس میں حق تعالیٰ کی مکمل ذات عیاں ہے۔ یہ اس فیضان الٰہی کا جلوہ ہے اور اس جاوداں معجزے کے رسول محمدمصطفی ﷺہیں۔
قرآن کریم حق تعالیٰ نے محمد ﷺ کے توسط دنیا کے انسانوں کی فلاح وبہبود کی خاطر نازل کیا۔ اسی قرآن میں حکم باری تعالیٰ ہے۔’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ کو ہدایت ودین حق کیلئے بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان ومذاہب پر غالب قرار دے اور اس کو ایک جگہ جمع کرکے ایک دین کی صورت میں پیش کردے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)
چناچہ ہر وہ مسلمان جو اسلام کے اصول وقواعد کا معتقد رہا اور پابند ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے افعال واقوال کو اپنی عملی زندگی میں مکمل طور اختیار کرلے اور ان تمام احکامات کی پیروی کرے جس کا مجموعی نام شریعت اسلام ہے۔
اگر ہم دُنیا وآخرت میں عزت وآبرومندی کے طالب ہیں تو ہم کو چاہیے کہ فقط محمدمصطفی ﷺکا بتایا گیا راستہ اختیار کرلیں اتحاد ورواداری کے زیر سایہ صراط مستقیم پر گامزن رہیں۔ اور اس قافلے میں ہمیشہ شامل رہیں جس کے راہنما حضور اکرم محمدمصطفی ﷺ ہیں کیونکہ اس قافلے کے نشانات آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺ ہیں۔
سب کی منزل مقصود توحید ویکتائی ہے۔ ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے عہد حاضر اور مستقبل کی سرفراز صرف وحدت میں مضمر ہیں اور ہماری راہ نجات فقط راہ اسلام ہی ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺنے جو شکست ناپزیر زحمتیں برداشت کیں ہیں ان کی قدروقیمت کو جانیں۔ اس بات کو فراموش نہ کریں کہ اگر ہم دُنیا میں مثالی امت بنناچاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ قرآن شریف کے احکامات اور رسول للہ ﷺ کے ہدایات کے آگے سر تسلیم خم کردیں اور خود کو فرقہ بندی کے تعصبات سے ہر طرح سے پاک وصاف رکھیں ۔ ہم کو چاہیے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہیں۔
اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ اللہ ہمارا پروردگار ہے۔ محمدﷺ اس کے آخری پیغمبر ہیں۔قرآن ہماری آسمانی کتاب ہے اور کعبہ ہم سب کا قبلہ ہے ۔ گویا حکم قرآنی کے بموجب تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک قرآن وسنت کی پیروی کرکے مسلمان متحد رہے اسلام کا پرچم بلندیوں پر آب وتاب کے ساتھ لہراتا رہا۔ کامرانی وکامیابی مسلمانوں کے قدم چومتی رہی اور قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں نیست ونابود ہوگئیں۔ لیکن یہی مسلمان جب اسلامی تعلیمات سے بے گانہ ہوکر مختلف گروہوں اور جماعتوں میں بٹ کر فرقہ پرستی کا شکارہوئے تو ذلت ورسوائی سے دوچار ہوگئے۔
افسوس جو امت پوری دُنیا کیلئے نمونہ بنائی گئی تھی وہ فرقہ بندی وگروہ بندی کی راہ پر گامزن اسلامی اقدار سے کھلواڑ کرنے لگی۔ محمدمصطفی ﷺ کے فرمادات اور قرآن وحدیث سے یہ بات واضح ہے کہ وہ شخص دین اسلام کا داعی نہیں ہوسکتا جو امت کے اتحاد میں رخنے ڈالے۔
سچائی تو یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور محمدمصطفی ﷺ کی رسالت وختم نبوت پر ایمان رکھنے والا ہر فرد مسلمان ہے۔ چاہے وہ سنی ہو کہ شیعہ،تبلیغی ہوکہ وہابی، مہدوی ہو یا اہل حدیث، سنت الجماعت ہویا جماعت اسلامی ہم ایک تھے، ایک ہیں اور اس بات کا عہد کریں کہ ایک رہیں گے۔ تاکہ خوشنودی محمد مصطفی ﷺ کے ہم حقدار بنیں۔
کی محمدؐ سے وفاتونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں