نایاب امجد
محرم کا چاند نمودار ہوتا ہے تو کشمیر کی فضائیں اداسی میں ڈھل جاتی ہیں۔ فضاؤں میں سیاہ پرچم لہرانے لگتے ہیں، گلیوں اور کوچوں میں “یا حسینؑ” کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں، اور دلوں میں ایک درد جاگ اٹھتا ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ محرم، صرف ایک مہینہ نہیں، بلکہ ایک زندہ تاریخ ہے۔ ایک ایسی یاد جو ہمیں کربلا کے میدان میں لے جاتی ہے، جہاں حق اور باطل کا فرق واضح کیا گیا، جہاں پیاسے بچوں کی صدائیں، سیدہ زینبؑ کا صبر، اور امام حسینؑ کا سرِنیاز ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ کشمیر میں اس مہینے کو جس عقیدت، درد، اور احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے، وہ اس خطے کی روحانی گہرائی کا عکس ہے۔ ہر طرف ماتمی جلوس، نوحے، سوز، اور سلام کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ سیاہ لباس پہن کر غمِ حسینؑ کا اظہار کرتے ہیں، گلیوں میں علم لہراتے ہیں، ہر سمت بینروں پر کربلا کی یاد رقم ہوتی ہے، اور حسینیت کے نام پر اشک بہاتے ہیں۔ لیکن… کیا صرف یہی کافی ہے؟ کیا ہم نے اس مہینے کی اصل روح کو واقعی پہچانا ہے؟ کیا یہی پیغامِ کربلا ہے؟ ہم نے شاید غم منانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے، مگر غم کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہیں۔
کربلا ہمیں قربانی، سچائی، صبر اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے۔ امام حسینؑ نے ہمیں بتا دیا کہ سر کٹایا جا سکتا ہے، مگر ظلم کے آگے جھکایا نہیں جا سکتا۔ مگر آج… ہم صرف نوحے پڑھ کر اور سینہ کوبی کر کے سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا، اور پھر اپنی دنیاوی مصروفیات میں گم ہو کر اس پیغام کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ہماری قوم میں وہ شعور، وہ بیداری، اور وہ عملی اقدام کہاں ہیں جن کی امامؑ نے امید کی تھی؟ آج اگر ہم صرف مجالس برپا کرتے رہیں، اور اپنے کردار میں کوئی تبدیلی نہ لائیں، تو ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم نے حسینؑ کا غم منایا؟ کیا ہم واقعی کوئی ایسا “تحفہ” دے پائیں گے جو بی بی فاطمہؑ کی بارگاہ میں پیش کیے جانے کے قابل ہو؟
- یہ ذمہ داری صرف فرد کی نہیں، خاندان اور سماج کی بھی ہے۔ خاص طور پر والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کربلا کا شعور دیں؛ محض نوحے یاد کرا دینا کافی نہیں، بلکہ یہ سمجھانا ضروری ہے کہ یہ نوحہ ہمیں کیا درس دے رہا ہے؟ یہ محض غم کا اظہار نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے، ایک راستہ ہے۔ بچوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ نوحہ وجود میں کیوں آیا؟ اس کے پیچھے کونسے تاریخی اور فکری محرکات تھے؟ جب بچے یہ جانیں گے، تب ہی وہ کربلا کو رسم نہیں، ایک زندہ حقیقت کے طور پر سمجھ پائیں گے۔
- آج کے نوجوانوں میں جذبہ ضرور ہے، لیکن انہیں راہ دکھانے والے ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ آج علم کی روشنی ہر طرف ہے، مگر دلوں میں اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں ؛ شاید اس لیے کہ ہم نے حقیقت کو سمجھنے کے بجائے رسموں کو اہمیت دی۔ سُبِیلیں لگانا ایک نیکی ہے، مگر اگر ہم پیاسوں کو پانی دے کر ظالموں کا ساتھ دیں، تو یہ سبیل امامؑ کی روایت کی نفی بن جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جلوسوں کے ساتھ ساتھ اُن جذبوں کو بھی اہمیت دیں جو ہمیں سچ بولنے، انصاف پر ڈٹ جانے، اور مظلوم کا ساتھ دینے کا حوصلہ دیں۔
- ہمارے بزرگوں نے محدود وسائل کے باوجود محرم کو نہایت وقار، خلوص، اور فہم کے ساتھ منایا۔ وہ ماتم بھی کرتے تھے، اور مقصد کو بھی زندہ رکھتے تھے۔ آج جب ہر سہولت دستیاب ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ویسا شعور پیدا نہ کر سکے؟ شاید اس لیے کہ ہم نے ‘ظاہر’ کو اپنایا، اور ‘باطن’ کو نظر انداز کر دیا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو صرف عزاداری نہیں، بلکہ کربلا کی حقیقت سے روشناس کر کے اُن کی روحوں کو بیدار کریں۔ کیونکہ اگر آج کے نوجوان حسینی فکر کو سمجھ جائیں، تو آنے والی نسلوں کے لیے حق پر قائم رہنا مشکل نہیں، بلکہ فخر کی بات ہو گی۔
یاد رکھئے، محرم صرف آنسو بہانے کا نام نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنا کردار دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اب کربلا کو صرف یاد نہیں کرنا، اسے جینا ہے۔ تبھی ہم امام حسینؑ کے کارواں کا سچا حصہ بن سکیں گے۔