قیصر محمود عراقی
ماں ایسی عظیم ہستی ہوتی ہے جس کے پیار ومحبت کی مثال تو خالق کائنات نے بھی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت بھی ماں کے قدموں تلے رکھی ہے، ماں سے پیار کا جذبہ محض انسانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام چرند وپرند حتیٰ کہ درندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ماں تو وہ ہستی ہے جس کی لازوال محبت کا بدلا انسان زندگی بھر نہیں چکا سکتا۔گرمی ہو یا سردی، ماں خود تو موسم کی سختیاں برداشت کرلیتی ہے لیکن اپنی اولاد کو ہمیشہ موسم کی شدت سے محفوظ رکھنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ وہ خود تو بھوکی وپیاسی سو سکتی ہے لیکن اولاد کی تڑپ کبھی نہیں دیکھ سکتی ، خواہ اس کے لئے اسے اپنی جان ہی قربان کیوں نہ کرنی پڑجائے۔ ماں کا پیار مال ودولت یا دستیاب سہولتوں کے تابع نہیں ہوتا اور نہ ہی ماں اپنے بچوں میں مال واسباب ، دولت وثروت کے حساب سے تفریق کرتی ہے بلکہ وہ تو اپنے نابینا، معزور اور گونگے بہرے بچوں کی خدمت میں بھی دن رات ایک کئے رہتی ہے۔ ماں اگر مرغی بھی ہو تو وہ بھی اپنے چوزوں کی حفاظت کیلئے بڑے اور خطرناک جانوروں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ جانوروں کی مائیں بھی اپنے بچوں کی پرورش اور حفاظت کیلئے اپنا سکون قربان کردیتی ہیں توپھر انسان جسے عقل وشعور کی دولت ودیعت کی گئی ہے ان کی محبت کتنی لازوال ہوگی۔ ماں کے بغیر انسانیت کا وجود ناممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب ، رنگ ونسل ، علاقے اور رسم ورواج میں والدین کی اہمیت اور پیار کو اولیت دی جاتی ہے کیونکہ اس دنیا میں آنے والی ہر روح کو پہلا پیار والدین سے ہی ملتا ہے، کوئی بڑا بدبخت ہی ہوگا جو ماں باپ کی نافرمانی کرے یا ان عظیم ہستیوں اور مقدس رشتوں کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات کہے۔
ماں جیسی بلند ہستی اللہ کی قدرت کے کرشموں ایک انوکھی تخلیق ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے۔ ماں ناقابلِ تسخیر محبت والفت کا حسین شاہکار اور اولاد کے تئیںبے غرض ہمدردی وشفقت کا روشن مینار ہے، جس میں پیار وممتا ، بے پناہ میٹھاس ، ایثار وقربانی کا انمول احساس اور دلچسپی ودلبستگی کا ہر سامان پوری فراوانی کے ساتھ جلوہ گر ہے کہ دنیا کے ہر طاقت وقوت ، ہر چاہت والفت اس کے آگے ہیچ ہے۔ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع اور عظیم سرمایہ ہے، نظام حیات میں سینکڑوں تغیرات آئے ہو ں، کائنات رنگ وبوں میں ہزاروں انقلاب برپا ہوئے ہولیکن ماں کی محبت میں عموماً کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ۔ ماں چاہے کوئی بھی ہو ، کیسی بھی ہو ، کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو ، کچھ بھی کرتی ہو ممتا کے جذبے سے سرشار پائی جاتی ہے ۔ ماں سے منسلک تمام درجات مہذب دنیا ہو یا غیر مہذب ، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر ، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ ، دنیا میں ماں جیسی کوئی ہستی نہیں، ہر چیز اور شئے کا نعم البدل ہو سکتا ہے سوائے ماں کے۔ حدیث نبویؐ ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔ اسی طرح کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے‘‘ ۔ ماں ہستی ہی ایسی ہے جو دنیا کی ساری مشکلات اور تکالیف خود سہتی ہے لیکن اپنی اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتی ہے انہیں اپنے پروں میں چھپا کررکھتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ماں جیسا پیار کوئی اور رشتہ دے بھی نہیں سکتا ۔ ماں کی شفقت ، محبت ، خلوص، پیار اور ایثار ومروت کسی تعارف کی محتاج نہیں کیونکہ ماں کی محبت وپیار بے لوث ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں تین حروف کا وہ شاہکار مجسمہ ہے جہاں سے الفت ، محبت، ایثار اور دعا کے سوا کچھ نہیں ملتا، جن لوگوں نے مائوں کی قدر اور خدمت کی وہ بامراد ٹھہرے، ان کے لئے عزت وتکریم اس جہاں میں بھی ہے اور آسودگی وتوقیر اگلے جہاں بھی ملے گی۔ ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ’’ماں‘‘ہے، دنیا کے کسی بھی زبان میں دیکھ لیں’’ماں‘‘ہی سب سے زیادہ جاذبیت اور پیار سے بھرا ہوتا ہے۔ ماں ایک ایسا لفظ ہے جس کی موتی جیسی چمک ، گلاب کی سرخی، رعنائیت، سونے کی تمتماہٹ اور ستاروں کی جھلملاہٹ میں دنیائے حسن ولطافت کی تمام تر خوشنمائی ورعنائی چھلکتی ہے۔ ماں وہ لفظ ہے جسے سن کر دلوں کو شادمانی وفرحت نصیب ہوتی ہے اور ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور ، الفاظ میں محبت ، آغوش میں دنیا بھر کا سکون ، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے، یہی نہیں بلکہ صرف ایک پیار بھری نظر ہی ایک حج کے ثواب کا سبب بن جاتی ہے۔ ماں اللہ تبارک وتعالیٰ کے طرف سے وہ خوبصورت تحفہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ،فضل ، کرم، رحیمی ، کریمی ، راحت، برکت اور عظمت کی جھلک آمیزش کرکے عرش سے فرش پر اتارااور آخر میںقدموں تلے جنت رکھ کر ماں کے مقدس اور اعلیٰ مرتبے پر فائز کردیا۔ ماں اپنی اولاد کیلئے ایک درخشاں ستارے کی مانند ہوتی ہے، ماں وہ واحد ہستی ہے جو اولاد کا مرتے دم تک ساتھ نبھاتی ہے۔
قارئین محترم! آج بدقسمتی سے آئے روز ایسی خبریں نظر سے گذرتی ہیںجیسے:بوڑھی ماں کو گھر سے نکال دیا، بیٹوں نے مکان ہتھیانے کیلئے ماں کو گھر سے نکال دیایہ کہہ کر ’’ماں کہیں بھی چلی جائو، ورنہ گھر ٹوٹ جائیگا‘‘، ایک بوڑھی ماں کو ایک بیٹے نے بیوی کے کہنے پر گھر سے بے دخل کردیا۔ اس طرح کے اوقات بدبخت کی اولاد کی نافرمانی کی انتہااور سنگ دلی کو بیان کرتے ہیں۔ ماں جیسی محسن شخصیت کو انسان کیوں بھول جاتا ہے؟ اور بعض پڑھے لگے لوگ اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہائوسزکیوں بھیج دیتے ہیں؟ سوچنے کی بات ہے۔ ہماری اقدار ہمیں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتیںکہ ہم ماں کے کسی قسم کا ناروا سلو ک کریں، ہمارے معاملہ رسم سے آگے عین عبادت کے درجے کا ہے، ماں کے پاس بیٹھنا ، ماں کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھنا اور ماں سے وہ باتیں کرنا جو اسے پسند ہیں، دراصل ہمارے دین کا حصہ ہے۔ لیکن افسوس جس کی طرف جس معاشرے میں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ، بدقسمتی سے وہی معاشرہ آج غیروں کی اندھی تقلید میں اس قدر مبتلاہوچکا ہے کہ اس جنت اور رضائے ربانی سے دامن بچاتا ، اپنی ہی روشن اقدار پامال کرتانظر آرہا ہے۔ میرے دوستو! دنیا وآخرت میں کامیابی مائوں کی دعا کی مرحون منت ہے، اس لئے اس عظیم ماںسے جتنی دعائیں سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668