ہسپتال وہ جگہ ہے جہاں بیمار کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ جہاں وہ درد کی شدت میں سکون کی تلاش کرتا ہے، اور جہاں وہ یہ سوچتا ہے کہ اب زندگی کچھ بہتر ہوگی۔ مگر افسوس! آج کے اس مادہ پرست معاشرے میں نہ صرف یہ امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں بلکہ ہسپتال موت کے دروازے بنتے جا رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے: نظامِ صحت کی کمزوریاں، ڈاکٹروں کی بے بسی، اور بعض کی بے حسی۔
سرکاری ہسپتالوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہاں نہ مناسب سہولیات ہیں، نہ مکمل اسٹاف۔ اکثر ڈاکٹروں پر اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ ایک ایک ڈاکٹر کو درجنوں مریض دیکھنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں ہر مریض کو انفرادی توجہ دینا ایک خواب سا لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ جگہوں پر غیر ذمہ داری بھی پائی جاتی ہے، جس کے باعث مریضوں کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے یا وہ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ صرف افسوسناک نہیں، بلکہ قابلِ اصلاح ہے۔
نجی ہسپتالوں کی بات کریں تو وہاں مریض کو علاج تو ملتا ہے، مگر صرف اس صورت میں جب اس کے پاس پیسہ ہو۔ ایک دن کا داخلہ لاکھوں روپے میں، ایک معمولی چیک اپ ہزاروں میں۔ اکثر ڈاکٹرز کا رویہ ایسا جیسے وہ انسانی جان بچا نہیں رہے، بلکہ ایک’’پیکیج‘‘ بیچ رہے ہوں۔ بھاری فیسوں کے باوجود، بعض اوقات تجربے اور اخلاقیات دونوں کی کمی صاف نظر آتی ہے۔
ہم نے ہمیشہ سُنا ہے کہ’’اللہ کے بعد سب سے بڑی امید ڈاکٹر ہوتا ہے‘‘۔ کئی ڈاکٹر واقعی دن رات محنت کر رہے ہیں، نیند قربان کر کے مریضوں کو سنبھال رہے ہیں۔ خاص طور پر کورونا جیسی آفت کے دوران ہم نے سفید کوٹ والوں کو ایک سپاہی کی طرح فرنٹ لائن پر دیکھا۔ مگر جب یہی پیشہ چند افراد کی لاپروائی یا تجارتی ذہنیت کی نذر ہو جائے تو پورے شعبے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
کیا یہ وہی پیشہ ہے جسے عبادت کہا گیا؟ کیا یہ وہی ڈاکٹر ہیں جنہیں فرشتہ کہا جاتا ہے؟ اگر فرشتہ ہی بے بس ہو یا بے پروا ہو جائے، تو مریض کہاں جائے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ:
(1)حکومت سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات اور اسٹاف کی کمی کو دور کرے۔
(2)نجی ہسپتالوں کے نرخ اور معیارات کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔
(3)ڈاکٹروں کی تربیت صرف طبی علم تک محدود نہ ہو بلکہ ان میں انسانی ہمدردی، پیشہ ورانہ اخلاق اور خدمت کا جذبہ بھی شامل کیا جائے۔
(4)ہر ہسپتال میں شکایات کا ایک مؤثر اور غیر جانبدار نظام موجود ہو تاکہ مریض کی فریاد سنی جا سکے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ صحت کا شعبہ کاروبار نہیں، عبادت ہے۔ اگر آج ہم نے اصلاح کی کوشش نہ کی، تو کل ہم میں سے کوئی بھی اس بگڑے ہوئے نظام کا شکار بن سکتا ہے۔
