غزہ میں اسرائیل کا ‘انسانی’ کیمپ منصوبہ، درپردہ نسلی صفایا؟

غزہ میں اسرائیل کا ‘انسانی’ کیمپ منصوبہ، درپردہ نسلی صفایا؟

اشوک سوین
جب کسی قوم کی آواز کو طویل عرصے تک دبایا جاتا ہے، تو یہ اجتماعی اموات کا سبب بنتی ہے۔ غزہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 22 مہینوں کے خونی قتل عام کے بعد، اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی حکومت نے اپنے ہاتھ ’صاف‘ ظاہر کرنے کے لیے ایک نیا راستہ نکالا ہے۔ جنوبی غزہ کے شہر رفح کے کھنڈرات پر فلسطینیوں کے لیے ایک نئے ’انسانی شہر‘ کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے مطابق، اس منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں رفح اور خان یونس کے درمیان واقع جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے الماواسی میں چھ لاکھ فلسطینیوں کو بسایا جائے گا، حالانکہ فی الوقت یہ علاقہ پہلے ہی حد سے زیادہ بھر چکا ہے۔ بعد میں اس ’انسانی شہر‘ کو پھیلا کر غزہ کی پوری 20 لاکھ سے زیادہ کی آبادی کو یہاں بسایا جائے گا۔
یہ تمام لوگ سخت سکیورٹی جانچ کے بعد ایک محدود علاقے میں رکھے جائیں گے۔ ان کی بیرونی دنیا تک رسائی مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی۔ وہ مکمل طور پر اسرائیلی فوج کے گھیراؤ میں ہوں گے۔ کیا یہ فوجی محاصرہ ’انسانی‘ محسوس ہوتا ہے؟ یا پھر یہ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے جبراً بے دخل کرنے، قید کرنے اور آخرکار انہیں مٹانے کا ایک مرحلہ وار منصوبہ ہے؟
ان لوگوں کی روزمرہ زندگی معمولی امداد پر منحصر ہوگی۔ ان کا مستقبل ان غیر ملکی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہوگا جنہوں نے نہ انہیں پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور نہ ہی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ اس مجوزہ علاقے کے انتظام کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، اگرچہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی نگرانی کسی خودمختار ادارے کے ذریعے کی جائے گی۔ بظاہر اسرائیلی فوج براہِ راست اس علاقے کا انتظام نہیں سنبھالے گی لیکن وہ مکمل کنٹرول ضرور رکھے گی۔یہ جبر کی ایک منظم حکمتِ عملی ہے: کسی خاص گروہ کو تنہا کرو، اس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرو، اسے ایک نئی جگہ منتقل کرو اور مکمل قابو حاصل کر لو۔ غزہ کے عوام پہلے ہی خوفناک بمباری، جبری نقل مکانی اور ناقابلِ تصور مصائب کا سامنا کر چکے ہیں۔ اب انہیں رفح کے ملبے پر بنے کیمپ میں جبراً منتقل کیا جائے گا۔
اسرائیل یہ سب کیوں کر رہا ہے، اس پر کوئی شبہ نہیں۔ اسرائیل واضح طور پر فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے پر ’مجبور‘ کرنا چاہتا ہے۔ وزیر دفاع کاٹز بار بار اس کی بات کرتے رہے ہیں، اگرچہ وہ ’رضاکارانہ نقل مکانی‘ جیسے گمراہ کن الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو مسلسل بمباری، بھوک، دوا کی قلت اور واپسی کے راستے بند ہونے کا سامنا ہو، ان کی نقل مکانی کو ’رضاکارانہ‘ نہیں کہا جا سکتا، یہ مکمل جبر ہے۔یہ منصوبہ اسرائیلی سیاسی حلقوں میں بھی خدشات کا سبب بن رہا ہے۔ معتدل سیاسی جماعت یش آتید کے رہنما اور حزب اختلاف کے لیڈر یائیر لاپید نے اسے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے، جبکہ سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے اسے ’اذیت خانہ‘ کہا ہے اور خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کو زبردستی کسی علاقے میں لے جانا ان کا نسل کشی ہوگا۔ اسرائیلی تاریخ میں اس قدر خوفناک مثال نہیں ملتی، لہٰذا مقامی رہنماؤں کی تنقید کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔فلسطینیوں کو یوں گھیر کر الگ کرنا اسرائیلی حکومت کے دائیں بازو کے شدت پسندوں اور ان کے بین الاقوامی اتحادیوں کے اس نظریے کے عین مطابق ہے جو غزہ سے مکمل بے دخلی پر یقین رکھتے ہیں۔ اسرائیلی فیصلہ ساز بین الاقوامی حمایت یا سفارتی حل کا انتظار نہیں کر رہے، بلکہ وہ زمینی سطح پر یکطرفہ اقدامات کر رہے ہیں، چاہے اس سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین بالکل واضح ہیں۔ مقبوضہ آبادی کی جبری منتقلی جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جبری ملک بدری بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض قانونی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک طویل اور تباہ کن ماضی کے ساتھ منسلک بڑے جرائم میں شامل ہے۔ جب یہ جرائم بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں تو انہیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا جاتا ہے۔ رفح میں بننے والا ’انسانی شہر‘ اسی زمرے میں آتا ہے۔اس منصوبے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کی کوئی معقول توجیہہ پیش نہیں کی گئی۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ شہر ایک عارضی محفوظ علاقہ ہوگا لیکن اس کے اپنے بیانات ہی اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ وہاں سے واپس جانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو یا فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس دینے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ اس کے برعکس، اسرائیلی حکومت دوسرے ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ غزہ سے نکلنے والے پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ یہ سکیورٹی اقدامات نہیں بلکہ نسلی بے دخلی کا اگلا مرحلہ ہے۔
اگر یہ نام نہاد ’انسانی شہر‘ قائم ہوتا ہے تو یہ درحقیقت ایک فوجی قید خانہ ہوگا۔ ایک ایسی جگہ جہاں 20 لاکھ افراد کو فوجی نگرانی میں رکھا جائے گا اور بتدریج وہاں سے بھی نکال دیا جائے گا۔ اس علاقے میں مستقل سکونت کے لیے کوئی انفرااسٹرکچر نہیں ہوگا، نہ اسکول، نہ کلینک، نہ ملازمتیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹ، کیونکہ مقصد غزہ کے اندر بازآبادکاری نہیں بلکہ فلسطینیوں کی موجودگی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا اس کی پالیسی کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار اس عمل کا دائرہ کار وسیع تر ہے اور اسے کھلے عام، منصوبہ بند طریقے سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت، جو انتہائی دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں کے زیرِ اثر ہے، اس منصوبے کو تیز رفتاری سے آگے بڑھا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی سے پہلے ’انسانی شہر‘ محض ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔ نسلی صفایا ایسے ہی ہوتا ہے، یہ اچانک نہیں ہوتا، بلکہ مرحلہ وار، سوچے سمجھے طریقے سے ہوتا ہے۔
اس جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ میں 60 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ پورے محلے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ اسپتال، اسکول اور مکانات کھنڈرات بن چکے ہیں۔ اور اب جو لوگ زندہ بچے ہیں، انہیں ایک ایسے پنجرے میں بند کیا جا رہا ہے جہاں سے وہ باہر نہیں نکل سکتے، جہاں ان کا انحصار صرف غیر ملکی امداد پر ہوگا اور ان کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔
اس منصوبے کا نفاذ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ بین الاقوامی اصولوں کے لیے بھی۔ کسی ملک کو انسانی ہمدردی کے نام پر پوری آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت دینا دراصل ان قوانین کو کمزور کرے گا جو دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے بعد وضع کیے گئے تھے۔ اس سے ان پالیسیوں کو معمول بنایا جائے گا جنہیں کبھی سفارتی سطح پر مجرمانہ قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا سب سے خطرناک پیغام یہ ہوگا کہ طاقتور ممالک بلا خوف و خطر، کسی قوم کو زبردستی اس کی زمین سے بے دخل کر سکتے ہیں اور ان کے سیاسی و سماجی نقشے بدل سکتے ہیں۔تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہ راستے کس انجام کی طرف لے جاتے ہیں۔ ’گھیٹو‘ میں بند کرنا، نظر بندی اور اجتماعی نقل مکانی جنیوا کنونشن کی صرف خلاف ورزیاں نہیں بلکہ ایسی پالیسیوں کے پیش خیمہ ہیں جو نسلوں تک پھیلنے والی خاموش اور مستقل تشدد کی نمائندگی کرتی ہیں۔

(اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازعہ کے مطالعات کے پروفیسر ہیں)