علی خامنہ ای کا اعلانِ جنگ، اسرائیل پر ہائپرسونک میزائلوں کا طوفان، ٹرمپ کو کرارا جواب

تہران/تل ابیب: ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سخت تنبیہ دی ہے۔ علی خامنہ ای نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے پیغامات میں کہا کہ ’جنگ کا آغاز ہو چکا ہے‘ اور اسرائیل کو سخت جواب دینا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم یہودیوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے۔‘‘علی خامنہ ای کے پیغامات کے کچھ ہی دیر بعد ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیا کہ آپریشن وعدہ صادق سوم (آپریشن ٹرو پرامس-3) کے تحت اسرائیل پر 11ویں لہر میں حملہ کیا گیا ہے، جس میں فتح-1 ہائپرسونک میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایرانی فورسز نے اسرائیل کے زیر قبضہ فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
ایران کی جانب سے داغے گئے ان میزائلوں نے تل ابیب سمیت مختلف اسرائیلی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی میزائل دفاعی نظام نے متعدد میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا، تاہم اسرائیلی فائر اینڈ ریسکیو سروسز کے مطابق جنوبی، مرکزی اور ساحلی علاقوں میں کھلے میدانوں میں آگ لگنے کے متعدد واقعات پیش آئے۔ہائپرسونک میزائلیں ایسی ٹیکنالوجی ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز (میک 5 یا اس سے زائد) ہوتی ہیں۔ ان کی رفتار، درستگی اور چکمہ دینے کی صلاحیت انہیں دفاعی نظاموں کے لیے تقریباً ناقابلِ تسخیر بناتی ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کم از کم 30 میزائل داغے گئے، جن میں سے بیشتر تل ابیب اور دیگر اہم شہروں کی جانب تھے۔
اس سے قبل، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں ایران سے ’بلا شرط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کیے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں معلوم ہے کہ خامنہ ای کہاں چھپے ہیں، وہ ایک آسان ہدف ہیں، مگر فی الحال ہم انہیں نشانہ نہیں بنا رہے لیکن اگر عام شہریوں یا امریکی فوجیوں پر حملہ جاری رہا، تو ہمارا صبر ختم ہو جائے گا۔‘‘ادھر، ایران-اسرائیل جنگ چھٹے روز میں داخل ہو چکی ہے۔ ایرانی حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے تہران اور اس کے مضافاتی علاقوں کو دوبارہ نشانہ بنایا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، پروازوں کی نگرانی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ نے گزشتہ تین دنوں میں کم از کم 30 فوجی طیارے یورپ روانہ کیے ہیں، جن کا مقصد جنگی طیاروں اور بمباروں کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری یہ کشیدگی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے، اور عالمی برادری اس جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے، مگر حالات بظاہر کسی فوری حل کی جانب نہیں بڑھ رہے۔