نقی احمد ندوی
علامہ سید سلیمان ندوی جن کو دنیا سیرۃ النبی کے عظیم الشان مؤلف کے نام سے جانتی ہے، ایک بلند پایہ عالمِ دین، ایک نامور سیرت نگار، ایک بہترین مورخ، ایک عظیم محقق، ایک بے مثال نقاد کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز ادیب اور شاعر تھے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بانیوں اور مولانا محمد علی مونگیری اور علامہ شبلی نے خواب دیکھا تھا کہ ندوۃ سے ایسے علماء تیار ہوکر نکلیں جو نہ صرف علم قدیم و جدید کا سنگم ہوں، بلکہ وہ مستشرقین کے افکار و خیالات پر اس طرح بجلی بن کر گریں کہ اس کی چمک سے ان کی باطل نگاہیں خیرہ ہوکر رہ جائیں اور ان کے بے بنیاد دعوؤں اور الزاموں کا نشیمن خاکستر ہوجائے۔
اور یہی کام علامہ سید سلیمان ندوی نے کردکھایا۔ علامہ شبلی نے ایک بار کہا تھا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ندوہ نے کیا کیا۔ سید سلیمان ندوی کو پیدا کیا یہی کافی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی گلشن ندوہ کے ایسے گل سرسبد ہیں جن کو تمام فرقے اور مسالک اپنا عالمِ دین تصور کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
علامہ سید سلیمان ندوی بہار کے مردم خیز گاؤں دلسنہ میں 1884ء کو پیدا ہوئے، آپ کا گھرانہ ایک علمی اور دینی گھرانہ تھا۔ آپ کے والد صاحب کا نام ابوالحسن تھا۔ کچھ دنوں تک اپنے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ دربھنگہ چلے گئے اور وہاں تعلیم حاصل کی پھر ہندوستان کے مشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں 1901ء میں داخلہ لے لیا اور پانچ سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا جب علامہ شبلی ندوہ میں اپنے نئے نصاب تعلیم کا تجربہ کررہے تھے، چنانچہ علامہ شبلی کی تعلیم و تربیت نے علامہ سید سلیمان ندوی کی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم رول ادا کیا۔ 1906ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد وہیں تھوڑے دنوں تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر ’’الندوہ‘‘ میگزین کی ادارت سنبھالی اور لکھنؤ میں مقیم رہے۔ 1913میں مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے آپ کو ’’الہلال‘‘ کی معاونت کے لیے کلکتہ بلالیا جہاں تقریباً چھ ماہ تک آپ نے اپنے مقالات اور مضامین کے ذریعے اپنی الگ ایک پہچان بنالی۔ پھر 1913ء کے اواخر میں پونا کالج چلے گئے جہاں پر عربی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفسیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ 1914ء نومبر کے وسط میں جب علامہ شبلی کی طبیعت ناساز ہوئی تو انھوں نے اپنے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی کو بلایا اور اپنی محبوب تصنیف سیرۃ النبی ﷺ اور دارالمصنّفین کے قیام کی ذمہ داری سونپی، چنانچہ آپ پونا چھوڑ کر اعظم گڑھ منتقل ہوگئے اور پھر اگلے تیس برس تک اپنے استاذ گرامی کے ادھورے خوابوں کی تکمیل میں مصروف رہے۔
1920ء میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں مجلس خلافت کے وفد کے ساتھ انگلستان کا سفر کیا اور وہاں قیام کے دوران انگریزی علمی ذخائر سے بھرپور استفادہ کیا۔ 1924ء میں سلطان عبدالعزیز آل سعود نے شریف حسین کو شکست دے کر جب حجاز فتح کرلیا تو دونوں نے ہندوستان کی مجلس خلافت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ چنانچہ علامہ سید سلیمان ندوی کی قیادت میں حجاز ایک وفد گیا مگر مصالحت کی ساری کوششیں ناکام رہیں۔ علامہ نے 1933ء میں کابل کے بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر علامہ اقبال اور سر راس مسعود کے ساتھ افغانستان کا تعلیمی سفر بھی کیا۔
1940ء تک آپ کی شہرہ آفاق تصنیف سیرۃ النبی کی ساری جلدیں شائع ہوچکی تھیں۔ دارالمصنّفین کی شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ آپ کی علمی تحقیقات اور معارف کے مجلہ نے پورا عالم اسلام میں آپ کو نہ صرف متعارف کرادیا تھا بلکہ آپ کی علمی عظمت آپ کے دور کے تمام نابغہ روزگار ہستیوں جیسے علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ نے اعتراف کرلیا تھا۔ لہٰذا 1943ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آپ کے علمی عظمت کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔
علامہ سید سلیمان ندوی نے 1923ء میں ہندوستان کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم بنائے گئے اور تاحیات اسی عہدہ پر قائم رہے۔
1949ء میں آپ نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ آخری حج کیا اور آلِ سعود کے مہمانِ خصوصی رہے۔ 1950ء میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر آپ پاکستان منتقل ہوگئے اور پاکستان کی دستور سازی کی مذہبی کمیٹی کا عہدۂ صدارت بھی سنبھالا۔
جہاں تک علامہ سید سلیمان ندوی کی علمی و تحقیقی خدمات کا تعلق ہے تو آپ کی تمام تصنیفات آپ کے تبحر علمی، تحقیقی ذوق، قرآن و حدیث کے عمیق علم، تاریخ اسلامی پر گہری نظر اور اسلامی علوم و فنون پر بے پناہ دسترس کی مثال ہیں۔ آپ کی مشہور تصانیف میں (۱) سیرۃ النبی جلد سوم تا ششم (۲) خطبات مدارس (۳) رحمت عالم (۴) حیات مالک (۵) سیرت عائشہؓ (۶) خیام (۷) حیات شبلی (۸) ارض القرآن (۹) عرب و ہند کے تعلقات (۱۰) عربی کی جہاز رانی (۱۱) سفرنامۂ افغانستان اور (۱۲) یادرفتگاں ہیں۔
اس کے علاوہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ’’معارف‘‘ کے شذرات اور مقالات ہیں جو آپ کی شاندار علمی کارکردگی میں چار چاند لگادیتے ہیں۔
مگر جن کتابوں کی تخلیق نے آپ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ان میں سیرۃ النبی، خطبات مدارس، ارض القرآن اور سیرت عائشہؓ اور خیام ہیں۔ خاص طور پر قابلِ ذکر جہاں تک سیرت النبی کے بقیہ چار جلدوں کی تکمیل کا تعلق ہے تو وہ علامہ سید سلیمان ندوی کی زندگی کا سب سے عظیم الشان علمی اور تحقیقی کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ اپنے استاذ علامہ شبلی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی علمی و تحقیقی انداز میں اس کی تکمیل کی بلکہ سیرت نگاری کو ایک ایسی شان عطا کردی جس کی نظیر پورے تاریخِ اسلامی میں مشکل سے ملتی ہے۔ سیرۃ النبی صرف حالات و وقائع نبوی کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ بعثت نبوی کے پیغام اور ترجمان کی بھی حیثیت رکھتی ہے اور ساتھ ہی اردو ادب و انشاء پردازی کی بہترین شاہکار ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زندگی کا دوسرا عظیم الشان کارنامہ دارالمصنّفین کے قیام اور اس کی تعمیر و ترقی تھا۔ یوں تو علامہ شبلی دارالمصنّفین کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اندر ہی قائم کرنا چاہتے تھے مگر اہلِ ندوہ کی مخالفت نے اس کے قیام کی کوئی صورت پیدا نہ ہونے دی۔ جب علامہ شبلی اعظم گڑھ میں مقیم ہوئے تو انھوںنے اپنے اس خواب کی تعبیر کا سامان اکٹھا کرنا شروع کیا۔ مگر عمرِ حیات نے وفا نہ کی اور اس کے قیام سے پہلے ہی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ علامہ شبلی کی وفات کے تین دن بعد مولانا حمیدالدین فراہی کی سرکردگی میں ایک ٹیم بنی اور ایک سال کے اندر دارالمصنّفین کا قیام عمل میں آگیا جس کے پہلے ناظم علامہ سید سلیمان ندوی بنائے گئے۔ علامہ نے دارالمصنّفین کو اپنے خونِ جگر سے سینچنا شروع کیا اور اس کے ڈیڑھ دو سال بعد معارف مجلہ بھی نکالنا شروع کیا، جس کا خاکہ علامہ شبلی نے تیار کیا تھا۔ چنانچہ علامہ 1916ء سے 1949ء تک بلاشرکت غیرے معارد کے مدیر مسئول رہے۔ دارالمصنّفین کے قیام کا اولین مقصد ملک میں اعلیٰ مصنّفین اور اہلِ قلم کی جماعت پیدا کرنا اور تحقیقی و علمی کتابوں کی تصنیف تھا اور بلاشبہ اس ادارہ نے ایسے محققین، مصنّفین ، قلم کار اور ادیب پیدا کیے جن کی تعداد پچاس سے زائد تک پہنچتی ہے اور جنھوںنے علم و تحقیق کے میدان میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو تاریخِ اسلامی کا سنہرا باب ہیں۔ مولانا عبدالسلام ندوی، شاہ معین الدین ندوی، عبدالباری ندوی، ریاست علی ندوی، عبدالسلام قدوائی، ڈاکٹر نعیم صدیقی، صباح الدین عبدالرحمن اور ضیاء الدین اصلاحی اسی گلشنِ علم وادب کے رنگ برنگے پھول ہیں۔ مختلف اسلامی موضوعات پر ڈھائی سوسے زیادہ علمی وتحقیقی تالیفات و تصنیفات نے اس ادارہ کو ایک علمی ریسرچ سینٹر کے طور پر پورے عالم اسلام میں متعارف کرایا ہے۔ اور ان سب کا سہرا دارالمصنّفین کے معمار اور پہلے ناظم علامہ سید سلیمان ندوی کو جاتا ہے جنھوںنے اپنی عمر عزیز کے تیس سال سے زائد اس چمن کی آبیاری میں صرف کردیے۔
علامہ سید سلیمان ندوی نہ صرف یہ کہ ایک عظیم الشان عالم دین، محقق، مورخ، سیرت نگار، ناقد اور صاحبِ طرز ادیب اور انشاء پرداز تھے بلکہ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ آپ کا شعری مجموعہ ارمغانِ سلیما کے نام سے شائع ہوکر دادِ تحسین حاصل کرچکا ہے۔
22؍نومبر 1953ء کو عالم اسلام کا یہ درخشاں ستارہ 71سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہوگیا اور اپنے پیچھے سیرۃ النبی جیسی تصنیف چھوڑ کر اسلامی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں رقم کرگیا۔