dooran

شجاع سلطان اپنے آئینہ سخن میں

مرحوم اشرف آثاری

شجاع ؔسلطان مرحوم اردو زبان کے ایک اچھے شاعر، ایک کامیاب و ہر دلعزیز براڈ کاسٹر اور ایک نامور مصو تھے۔ انہوں نے 9اپریل 2008 کو جموں میں اپنی آخری سانس لی اور اسی دن ان کے وفات کی خبر ریڈیوکشمیر سے نشر ہوگئی اور دوسرے دن اخبارات و غیرہ میں بھی چھپ گئی اس طرح سے اردو زبان و ادب کا ایک اور درخشاں ستارہ خلاؤں میں کہیں گم ہو گیا اور ہم سے دور بہت دور چلا گیا۔
شجاع سلطان کی عمر ابھی اتنی زیادہ نہ تھی ۔ سیٹھ پینسٹھسال کی عمر بھی کوئی مرنے کی عمر ہوتی ہے۔ لیکن مثبت ایزدی کے آگے بھلا کس کی چلی ہے اور نہ چلے گی۔ اس حقیقت کو کون بھلا سکتا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کی تلخی کا مزا چکھتا ہی چکھنا ہے۔
شجاعسلطان انتہائی شریف النفس، ساده طبیعت، ملنسار، نفاست پسند اور ہمدرد و تخلص انسان تھے۔ غالباً یہی وہ عناصر فطرت ہیں جو ایک حیوان ناطق کو انسان یا اشرف المخلوقات بنا دیتے ہیں اور پھر ایک فنکار بھی ،شجاعسطان میں مذکورہ نیک خصائل بدرجہ اتم شاید اسلئے بھی موجود تھے کہ وہ بہ یک وقت ایک اچھے اردو شاعر بھیتھے اور ایک اچھے مصور بھی تھے۔ اپنی اس قلیل زندگی میں انہوں نے اپنی اردو شاعری اور مصوری سے اردو زبان و ادب اور فن مصور ہ کو بہت کچھ دیا۔
اپنے مختصر سے تخلیقی سفر کے دوران شجاع نے نہ شاعری سے ہی دیوان کے دیوان بھر دیئے اور نہ ہی تصاویرسے بھرے البمکے البمسجا دیئے۔ ان کا کام مختصر ہی ہے لیکن معیار متعینکرنے کیلئے نہ چھاپ خانہ ہی بنا پڑتا ہے اور نہ ہی اسکینر
شجاع سلطان ہر ایک کام بہت سنبھل سنبھلکر کرنے والے بالکل بلا ضرر انسان تھے۔ مرحوم کے تکلم میں بھی سادگی ونفاست اور خلوص ومحبت ٹپکتی تھی۔ ان کافن بھی انہی صفات وخوبیوں سے مذئین ہے۔ ایک سلیقہ مند انسان تھے۔ اردوغزل اور نظمکہنے میں خاص مہارت و تجربہ رکھتے تھے۔ ایک عرصہ سے گیسوئے غزل بالکل اسی طرح سنوارنے میں مصروفو مشغول تھے۔ غزل کا ہر شعر انتخاب کا شعر ہوتا تھا۔ اس لئے سامعین سے خوب داد بھی وصول کرتے تھے چونکہ اشعار پڑھنے اور سنانے کا انداز بھی منفرد و مخصوص اور خوبصورت تھا۔ اس لئے بار بار مقرر مقرر کی آوازیں آتی تھیں۔
ریڈیو کشمیر کے ساتھ اپنی وابستگی اور ایک اچھے براڈ کاسٹر ہونے کی وجہ سے اپنی دلکش آواز کا استعمال بھی خوب آتا تھا۔ دو سال قبل وادی کا اردو داں طبقہ ابھی حکیم منظور کی رحلت کے صدے سے بھی باہر نہ نکل پایا تھا کہ شجاع سلطان داغ مفارقت دے کر چلے گئے۔
پچھلے لگ بھگ میں سالوں سے مرحوم شجاع
شجاعؔ سلطان کے ساتھ مشاعروں اور دیگر تقاریب میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ کچھ وقفے تک ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ایک دوسرے کو دیکھنے سنے کا موقع ملتا تھا۔ مختلف موضوعات پر بھی اپنے خیالات شیئرکرنے کاموقعہ ملتا تھا۔ بحیثیت ایک اردو شاعر اور ایک مصور کے عام لوگ انہیں جانتے تھے۔ ریڈیو کشمیر کے ساتھ ان کی وابستگی کی وجہ سے اردو سامعین کیلئے ان کی آواز جانی پہچانی تھی ۔ عمر کے آخری پڑاؤ پر ان کا ذہن مصوری کی طرف کچھ زیادہ ہی مائل تھا۔ ویسے بھی وہ خال خال ہی اب مشاعروں میں نظر آتے تھے۔ پہلے اردو ورسائل وجرائد میں بھی ان کا کلام شائع ہوتا تھا۔
شجاعؔ سلطان انتہائی حساس فنکار تھے ۔ مزاج ، غزل گوئی کی طرف مائل تھا۔ الفاظ کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ زبان و بیان پر کامل دسترس حاصل تھی۔ انتہائی سنگلاخ زمینوں میں بھی بہت عمدہ اوراچھے اچھے اور دل کو چھو لینے والے اشعار کا لتے تھے جن افکار و خیالات کو نوک قلم سے دامن قرطاس تک پہچانے میں دقت محسوس کرتے تھے۔ انہیں برش کے سپرد کر کے کینو اس پر اتارتے تھے۔ الفاظ اور رنگوں کے مزاج سے پوری طرح سے واقفیت تھی۔ سیدھے سادھے الفاظ اور لب و لہجے میں بڑی سے بڑی بات کہنے میںبڑے ماہر تھے۔
ذاتی طور پر ایک ملنسار اور محنتی مختص تھے۔ ہر چھوٹے بڑے شخص کے ساتھ انتہائی ادب اور احترام وخلوصکے ساتھ پیش آتے تھے۔ جہاں جہاں بھی رہے اپنے مداح اور دوست پیدا کئے ۔کسی ازم فرقہ یا گروہ بندی کے ساتھ وابستہ نہ رہے۔ اپنی مہارت وقابلیت سے وادی ملک اور ملک سے باہر بھی اپنے مداح پیدا کئے۔ لیکن پھر بھی اس بات کا ذرا سا غرور یا گمان تک نہ تھا۔ غالبا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آج بھی ان کے شاگردوںدوستوں اور بزرگوں میں ان کی یاد تر وتازہ ہے اور وہ ان کے معترف بھی ہیں۔
ایک شاعر اور ایک مصور جب ایک ہی شخصیت میں جمع ہو جاتے ہیں تو پھر تخلیق ہونے والی شاعری اور مصوری میں ایک الگ اور منفرد ومخصوص قسم کا امتزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی ایک وہ ہے کہ جب ہم شجاع سلطان کی اردو شاعری کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی شاعری میں ایک طرح کی پیکر تراشی نظر آتی ہے۔
چلتے پھرتے تھرکتے اور رقص کرتے ہوئے زندہ و جاوید کردار اور عکس و پیکر دکھائی دیتے ہیں جو بولتے اورباتیں کرتے ہوئے اور اپنی رودادستاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور جب ہم شجاعؔ سلطان کی پیٹنگس کا جائزہ لیتے ہیں تو میں ان کی تصاویر میں شاعرانہ جمالیات کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ دونوں خصوصیات ان کی شاعری اور مصوری میں ایک نئے صحت مندر رجحان کو تقویت دیتی ہیں اور ان کے شہہ پاروں کا حسن اور بھی دو بالا کرتی ہیں۔
شجاعؔسلطان کی شاعری ان کے دیگر ہمعصر شعراء سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ ان کا ایک اپناہی منفر دمخصوص لب ولہجہ ہے۔ استعاروں کو برتنے کا سلیقہ جدا ہے شجاعؔسلطان کی شاعری کا فلسفیانہ نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ایک عام قاری کی نظر سے مطالعہ کرنے سے ان کے نظام فکر کی نیرنگیاں اور اس نظام قمر کے پیچھے ان کے بے لوچ خلوص ومحبت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ ان کے فکر و فلسفے کی اساس محبت پر ٹکی ہوئی ہے۔ زندگی سے جڑے معاملات کا شعور و فہم اور اس کی گہری بصیرت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس شعور بصیرت نے شجاع ؔکو اردو شاعری کی خاص طور پر اردو غزل کی وسعتوں سے روشناس کرایا اور ان کے فکر وشعور میں وسعت و کشادگی کے ساتھ ساتھ حسن و خوبصورتی بھی پیدا کی کہ ان کے ذہن کی تعمیر و تشکیل صحت مند طریقے سے تشکیل پائی۔
شجاعؔسلطان کے فکری سرچشمے کسی بڑے مفکر و فلسفی سے مستعار لئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ شجاع نے اپنے لئے نئی نئی پکڈنڈیاں خود ہی تعمیر کیںانہوں نے اردو غزل کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے اور سمجنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔
شجاع کے اشعار پڑھ کر زندگی سے متعلق ان کے تلخ و تند لہجے کے پس منظر میں ان کے منطقی دلائل کانہیں بلکہ ان کے بے لوث خلوص ومحبت کے جذبے اور ان کے خوبصورت اور صاف و شفاف باطن کی عکاسی ہوتی ہے اور ان کی زندگی اور ان کی کائنات کے سیاق وباق سمجھ میں آجاتے ہیں۔
شجاع ؔسلطان نے نظموں کے مقابلے میں غزلیں زیادہ کہی ہیں اور جب ہم ان کے کلام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں وہ حزن وملال، رنج والم اور یاس وغم کے شاعر نظر آتے ہیں نہ جانے زندگی کا یہ رنگ انہیں اس قدر عزیز کیوں تھا؟ ان کے کالم میں مجموعی طور پر، محرومی تفکر وتردو، تشویش وانتشار تنہائی وبے سروسامالی بے بسی ولاجاری اور یاسیت وغیرہ نظر آتی ہے لیکن انہوں نے زندگی کے ان حقائن کو اپنے مخصوص ومنفرد لب ولہجے اور انداز میں اپنی شاعری میں پیش کیا ہے کہ قنوطیت کا کہیں پر شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی ان برہنہ سچائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے اور ہمت پیدا ہوجاتی ہے
شجاعؔ سلطان کی شاعری اور مصوری سے ان کے ذہن و شعور میں پروان چو سنے والے ان کے مخصوص نقطہ نظر ان کے خیالات،، فکر و فلسلے اور ان کے تخیل میں بسی ہوئی دُنیاد کا ئنات سے متعلق تصویر اور اس تصویر کے مختلف عکس آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ ان کے خوبصورت و حسین فکری احساسات کا بھر پور مشاہدہ ہو جاتا ہے اور ان کے تصورات کی جمالیات سے آشنائی ہو جاتی ہے۔ ان کا ذبان حسن پرست تھا۔ان کے اندردغا،فریب ،دھوکہ، مکاری، عیاری ظلم و جبر ، استحصال جیسی بری خصائل کادور دور تک نام ونشان تک نہیں تھا بلکہ ان کی تخلیقی اور فنی کا ئنات ایک مثالی کا ئنات ہے جس میں جہاں تک نظر پڑتی ہے صرف خلوص اور محبت دکھائی دیتا ہے۔ ہمدردی وحمخواری ، انسان دوستی اور بھائی چارہ ہے۔
شجاع ؔسلطان کے اندر جو شاعر و مصور چھپا بیٹا تھا، اسے اپنی محرومیوں کا احساس اور گلہ بھی تھا لیکن وہ مایوس و پست ہمت نہیں تھا بلکہ وہ نئے اُفق کی تلاش میں سرگرداں بھی نظر آتا ہے۔ اسے اس مشینیدور میں اقدار کی شکست وریخت کا حزن وملال ضرور تھا۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو تیز وتندطوفان کے تھپیڑوں کو نہیں سونپا تھا بلکہ اسے پنی ہمت وحوصلے پر بھی نظر تھی۔ اسے دُںیا میں پھیلتی ہوئی بدامنی، اضطراب، قتل وغارت گری، دھوکہ دھڑی اور جرم وگناہ پر افسوس وقلق بھی تھا۔ لیکن اشف المخلوقات کی نیک صفات سے وہ مایوس بھی نہیں تھا اور نہ نااُمید ہی تھا۔ افسوس اپنے فن میں زندگی کی بھر پور عکاشی کرنے والا یہ شاعر ومصور فطرت اب ہم میں موجود نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی اردو شاعری کا مطالعہ فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے نہیں کیا جائے ان کے نظام فکر کی اساس محبت پر ٹکی ہوئی ہے۔ شجاعؔ مرحوم نے محبت کو ہی اپنا اوڑ ھنا اور بچھونا بنا رکھا تھا ۔زندگی ہے جڑے معاملات کا شعور و بصیرت نے انہیں شاعری کی وسعتوں سے ہمکنار کر اد یا تھا۔ ان کے فکر وشعور میں وسعت و کشادگی پیدا کر دی ہے اور ان کے ذہن کی تعمیر وتشکیل بھی ایک صحت مند طریقے سے انجام پائیہے۔ ان کے فکری سرچشمے ان کے اپنے ہیں کسی سے مستعار لئے ہوئے نہیں ہیں ۔ انہوں نے اپنے لئے نئے نئے راستے تلاش کے ہیں۔ اردو غزل کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
شجاعؔ سلطان مرحوم کی شاعری پڑھ کر،واقعی زندگی سے متعلق ان کے تلخ وتندلہجے کے پس منظر میں ان کی منطقی ولائل کا نہیں ،بلکہ ان کے بے لوث خلوص ومحبتکے جد بےاور ان کے خو بصورت وصاف وشفاف باطن کی عکاسی ہوتی ہے اور ان کی زندگی اور ان کی زندگی اور ان کی کائنات شعر کے سیاق وسباق سمجھ میں آجاتے ہیں۔