خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا

خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا

حسن ساہوؔ

اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نےحضرت فاطمہؑ کو اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا پس جب وہ نور چمکا تو اس نے اپنی روشنی سے آسمانوں اور زمین کو منور کر دیا ( بحار الانوار ج ۴۳ ص ۱۲)

حضرت فاطمہ زہرہ تاریخ بشریت کی اس نادر اور صاحب فضل کمال شخصیت کا نام ہے ۔ جو خواتین عالم کے لئے اسوہ کامل کا درجہ رکھتی ہے۔ بیٹی ، ماں اور بیوی کی حیثیت سے انہوں نے وہ ِکِردار پیش کیا ہے جو ہر اعتبار سے عدیم المثال ہے۔ دامن رسالت کی پروردہ اس عظیم خاتون نے چھ برس کی کم سنی میں ہی اپنے والد محترم رسول اللہ کے قابل تحسین مشن کی کامیابی کے لئے نمایاں خدمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔
حضرت فاطمہ کی سیرت دنیا بھر کی عورتوں کے لئے مشعل راہ سے کم نہیں ۔ آپ صبر و استقلال کا پہاڑ حلم و بردباری کی آہنی دیوار اور مساوات کا مجسمہ تھیں۔ اطاعت شوہر اور بچوں کی صالح پرورش کا طور و طریقہ آپ کے حسن کردار کا آئینہ دار ہے۔ یہ آپ کی نیک سیرتی کا اثر تھا کہ جبش کی رہنے والی کنیز جس کا نام فضہ تھا بعد وفات فاطمہ چالیس برس زندہ رہی مگر قرآن کی آیتوں کے علاوہ گفتگو نہ کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کی فضا اور رہن سہن کا ماحول کس قدر قرآن کے پیمانے میں ڈھلا ہوا تھا۔
فاطمہ اپنے والد محترم رسول اکرم کے لیئے واجب تعظيم تھیں ۔ جب حضور کی خدمت میں آتیں تو رسول اللہ تعظیم سے کڑے ہو جاتے ۔ تعظیم و تکریم اس وجہ سے بھی تھی کہ آپ کی اولاد یا سبان دین اور نگہبان اسلام ہونے والی تھی۔
رسول اکرم نے فاطمہ کو مختلف القاب سے نوازا تھا ۔ مثلاً رافیہ، معرفیہ، عابدہ، زاہدہ، ساجدہ ، ماجدہ، طاہرہ وغیره- ہر لقب اس وقت ملا جب عملاً آپ اس پر کار بند رہتیں۔ یہ منزل تھی کہ جہاں بڑے بڑے او الوالعزم پیغمبر کی بیویاں بھی ایسے خطابات یا القاب سے محروم رہیں۔ اگر میں فاطمہ کے مقابلے میں حوا یا مریم کو لاتا ہوں تو مجھے سخن فتچوری کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
ـ ایک ہوئیں جنت سے خارج، ایک بیتُ اللّٰہ سے
مریم و حوّا سے کیا دوں تجھ کو نسبت، فاطمہؑ؟
جب تک فاطمہ زندہ رہیں بھی شوہر نامدار حضرت علی کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ اسی اطاعت کا نتیجہ تھا کہ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئیں تو حضرت علی نے پوچھا :
فاطمہ تم نے غذا بالکل چھوڑ رکھی ہے۔ آخر کس چیز کو طبیعت چاہتی ہے؟
آپ نے فرمایا۔
ابو الحسن اگر ہو سکے تو ایک انار مجھے لا کر دو:
انار کا رس پینے کو جی کرتا ہے۔
یہ سننا تھا کہ حضرت علی فوراً انار کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے۔ مدینہ اور اطراف مدینہ میں گئے لیکن انار دستیاب نہ ہوا۔ حضرت علی کو افسوس ہونے لگا کہ فاطمہ نے بھی حالت بیماری میں معمولی سی چیز انار کی فرمائش کی اور میں کس طرح نامراد گھر جاؤں۔ ابھی یہ کھڑے سوچ رہے تھے کہ شمعون یہودی سامنے سے آتا دکھائی دیا اسے انار کی بابت دریافت کیا۔ شمعون نے کہا انار یمن سے میرے پاس آئے تھے اور میں نے سب فروخت کر دئے ۔ یہ کہتا ہوا حضرت علی کو گھر لایا۔ جب شمعون کی زوجہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ میرے پاس دو انار ہیں جو میں نے اپنے لئے نکال لئے تھے۔ وہ میں آپ کو دے دیتی ہوں۔
یہ سن کر مولائے کائنات کا دل باغ باغ ہو گیا۔ دونوں انار لیکر گھر کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ اب بھلا حضرت علی کو کہاں برداشت کہ بغیر اس کی حالت دریافت کئے گھر جاتے ۔ فوراً اس آواز کی طرف چل پڑے تو معلوم ہوا کہ ایک شخص سخت بیمار ہے۔ جب مریض کے قریب آئے تو اس نے حضرت علی کے ہاتھ میں انار دیکھے تو کہنے لگا
“یا مولٰی میرے حلق میں بے حد خشکی ہے اگر ہو سکے تو انار کا
عرق نکال کر مجھے پلا دیں“
حضرت علی نے فوراً دونوں انار کا عرق نکال کر مریض کو پلا دیا۔ خاموشی کے ساتھ گھر آئے کیا دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بیٹھی ہوئی ہیں اور ان کے سامنے ایک تھال رکھا ہوا ہے۔ جس میں انار ہیں۔ آپ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا ” یہ انار کہاں سے آئے؟ فاطمہ نے فرمایا۔
“ایک شخص آیا اس نے آواز دی کہ علی نے انار بھیجے ہیں” ۔ حضرت علی نے جب یہ سنا تو خدا کا شکر یہ ادا کیا۔
ایثار کا یہ عالم تھا کہ سرور کائنات نے ایک مرتبہ نئی قمیض فاطمہ کو دی۔ جس دن یہ قمیض دی ہے اسی شام ایک سائیلہ نے در پر آواز دی کہ “ائے خاندان نبوت و رسالت میں اپنا تن ڈھانپنا چاہتی
ہوں۔ میری مدد کرو.”
یہ آواز سن کر حضرت فاطمہ کا دل تڑپ اٹھا۔ فورا بابا جان رسول اکرم کی دی ہوئی قمیض اس سائلہ کے حوالے کر دی اور خود پھٹی پیوند لگی قمیض پہن لی۔ جب دوسرے روز رسول خدا آئے تو بیٹی کے بدن پر پیوند لگی قمیض دیکھ کر دریافت کیا۔
“بیٹی میں نے تمہیں نئی قمیض دی تھی اس کو کیوں نہیں پہنا.”
فاطمہ نے آبدیدہ ہو کر کہا۔
رات کو ایک سائیلہ نے قمیض کا سوال کیا۔ میں نے اس کو دے دی
یہ سن کر حضور نے بیٹی کی پیشانی کا بوسہ لیا۔
گھر کا سارا کام ایک دن خود کرتی اور ایک دن فضہ کرتی۔ ایک دن فاطمتہ کی باری تھی جبکہ وہ روزہ رکھے ہوئے تھیں ۔ چکی پیستے پیستے سو گئیں ۔ ام ایمن کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ فاطمہ زہراء سوگئیں ہیں چکی خود بخود چل رہی ہے۔ تسبیح لٹکی ہوئی ہے مگر اس کے دانے گردش کر رہے ہیں ۔ حُسین جھولے میں ہیں اور جھولا خود بخود ہل رہا ہے۔ میں نے اس واقعہ کی خبر پیغمبر اسلام کو دی۔ آپ نے فرمايا :
“ام ایمن تم کو خبر نہیں فرشتہ چکی چلا رہا ہے۔ جبرائیل جھولا جھلا رہے ہیں ۔ فاطمہ روزہ کی حالت میں تھی ۔ خداوند نے اس پر غنودگی طاری کر دی تا کہ آرام مل جائے۔”
ایثار کی ایک اور مثال ملتی ہے۔ کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں ایک سائل نے تین سوالات کئے ۔ دو سوالات تو حل ہو گئے۔ مگر تیسرے سوال کو سلمان فارسی نے اپنے ذمہ لیا۔ وہ سیدھے فاطمہ کے در پر آگئے اور کہا۔
“ایک سائل بھوکا ہے اور اس کے کھانے کی ذمہ داری میں نے لی ہے۔” یہ سن کر فاطمہ نے کہا۔
سلمان گھر میں کچھ نہیں ہے۔ البتہ یہ میری چادر ہے اس کو گروی رکھ کر گندم لاؤ تا کہ میں سائل کی مراد بھر لاؤں۔” سلمان چادر زہراء لیکر شمعون یہودی کے پاس آئے۔ اسے گندم لیا اور فاطمہ کے حوالے کیا۔ فاطمہ نے اسکو جلدی جلدی پیسا اور روٹیاں پکا کر سلمان کے حوالے کر دیں۔ سلمان نے کہا اپنے بچوں کے لئے کچھ روٹیاں رکھ دیجئے جس پر آپ نے فرمایا:
“ہو سکتا ہے کہ اس کے بھی بچے ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان کا حق لے لوں.”
پردئے کا اس قدر خیال تھا کہ فاطمہ نے ایک دفعہ حضرت فضہ
سے فرمایا :
” یہ مجھے بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی میت تختے پر اٹھائی جائے۔ اس طرح میت کے جسم کی جسامت نظر آتی ہے اگرچہ اس پر چادر ہی کیوں نہ پڑی ہو ۔”
یہ سن کر فضہ نے کہا کہ ہمارے ملک حبش میں میت کو تابوت میں رکھ کر قبرستان لے جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر فضہ نے تابوت کا نقشہ پیش کیا ۔ فاطمہ کو بے حد پسند آیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے لئے لکڑی کا تابوت بنوا لیا۔ تاریخ اسلام میں یہ پہلا تابوت ہے جس میں حضرت فاطمہ قبر کی منزل تک پہنچی۔
حضرت فاطمہ کا کہنا تھا کہ :
عورت کا حسن و جمال اس کی حیاوشرم میں پوشیدہ ہے
عورت کا نکھار گھر کی ذمہ داریوں میں پنہاں ہے اور عورت کی پیشانی کا جھومر شوہر کی اطاعت ہے۔