دنیا میں سب سے مضبوط فوجی طاقت سمجھا جانے والا ملک امریکہ ان دنوں اسلحوں کی شدید کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ امریکی فوج کے سابق کرنل اور پنٹاگن کے سابق صلاح کار ڈگلس میک گرور نے کیا ہے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ موجودہ حالت میں کسی جنگ کے لیے میدان میں آتا ہے تو وہ صرف 8 روز تک ہی لڑ سکے گا۔ اس کے بعد اسے جوہری اسلحوں کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ میک گرا نے یہ تبصرہ ایسے وقت میں کیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرین کو امریکی اسلحوں کی ایک بڑی کھیپ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح ہو کہ امریکہ مسلسل یوکرین کی مدد کرتا آ رہا ہے، خاص طور پر روس کے خلاف جنگ میں۔ لیکن اب یہی مدد امریکہ کی خود کی دفاعی تیاریوں پر اثر انداز ہوتی نظر آ رہی ہے۔سابق امریکی فوجی افسر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا ہے کہ ’’ہم صرف 8 دن تک ہی روایتی جنگ لڑ سکتے ہیں، اس کے بعد ہمیں ایٹمی آپشن کا سہارا لینا پڑے گا۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کے میزائلوں کی کم ہوتی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اپنے ہتھیار بیرون ممالک بھیجنا بند کر دے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی شناخت اب تک ایسے ملک کی رہی ہے جو دنیا کے کسی بھی خطہ میں جنگ شروع کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ کے ہی میزائل اسٹاک پر خطرے کے بادل منڈلانے لگے تو یہ نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سیکورٹی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس درمیان روس نے مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ کے ذریعہ یوکرین کو فراہم کیے جا رہے طویل فاصلہ تک مار کرنے والے میزائلوں پر سخت اعتراض کیا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یوکرین ان میزائلوں کا استعمال روسی شہری علاقوں پر حملے کے لیے کر رہا ہے، جس کی وجہ سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ اگر یوکرین کو اس طرح کے اسلحے فراہم کیے جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے جنگ کی نوعیت ہی بدل جائے گی۔ ہمیں پھر یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ’ناٹو‘ ممالک براہ راست اس جنگ میں شامل ہیں یا نہیں۔
