عابد حسین راتھر
جب بھی میں پُرانی یادوں کے دریچوں کو کھولتا ہوں تو ایک ایسا زمانہ یاد آتا ہے جو کچھ زیادہ پرانا نہیں لیکن لگتا ہے جیسے صدیوں پہلے کی بات ہو۔ ایک وقت تھا جب ہماری زندگی اجتماعی ہوا کرتی تھی۔ جب ہم کُھلی فضاؤں میں بنا دیواروں کے سچی، مخلص اور فطری زندگی جیا کرتے تھے۔ ہمارے بچپن میں سرحدیں دلوں میں یا زمین پر نہیں بلکہ صرف نقشوں پر ہوتی تھیں۔ ہر خوشی مشترک اور ہر غم مشاع ہوتا تھا۔ “میری خوشی، میرا دکھ” جیسے جملے لغت میں بھی نہیں تھے کیونکہ کسی ایک فرد کا مسئلہ پوری بستی کا معاملہ ہوتا تھا۔ اگر کسی گھر میں بچہ پہلا قدم رکھتا تو میٹھے پکوڑے ہر دروازے تک پہنچتے تھے۔ کسی کے ہاں گائے بچھڑا دیتی تو اس کا پہلا دودھ سب میں بانٹا جاتا تھا۔ اگر کوئی بچہ امتحان میں کامیاب ہو جاتا تو پوری گلی جشن مناتی۔ جب کسی گھر میں کوئی آفت آتی تو ریڈیو اور ٹی وی خاموش ہو جاتے، قہقہے دب جاتے اور تقریبات مؤخر کر دی جاتی تھیں۔ پڑوسی رشتہ داروں کی طرح ہوتے تھے۔ ان کی مسکراہٹیں ہمیں خوش کرتی تھیں اور ہمارے آنسو ان کو اداس کرتے تھے۔
مگر آج وہ دنیا صرف ایک دُھندلی یاد بن چُکی ہے جیسے کسی پرانے صندوق میں رکھی ہوئی دھندلی شکل والی تصویر جس میں کچھ بھی پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ اب ہم ایک ایسے زمانے کے باشندے ہیں جہاں رازداری کو شان اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ “کسی کو مت بتانا”، “یہ بات بس ہمارے درمیان رہنی چاہیے”، “کسی کا کیا لینا دینا”، یہ جملے جو کبھی سرد مہری یا بدتمیزی کی علامت ہوا کرتے تھے اب حرفِ عام اور قابلِ فخر بن چکے ہیں۔ اب ہم فخریہ لہجے میں کہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے معاملات سے کیا لینا دینا۔ لیکن اس سوچ میں ہم نے ایک دوسرے سے جُڑنے کا شعور کھو دیا ہے جو انسانیت کا ایک قیمتی جوہر ہے۔ ہمارے بزرگ اکثر کہا کرتے تھے کہ غم بانٹنے سے آدھا ہو جاتا ہے لیکن خوشی بانٹنے سے دوگنی ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہ تھا بلکہ جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ ہمارے پڑوس میں اگر کوئی بے روزگار ہوتا تھا تو اس کے بے روزگار ہونے پر چپ نہیں سادھی جاتی تھی بلکہ اس کی مدد کی جاتی تھی۔ اگر کسی گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو لوگ اس کی مالی امداد اور صحتیابی کی دعاؤں کیلئے جوق در جوق اس کے گھر پہنچتے تھے۔
آج ہم اپنے کنکریٹ مکانوں اور بند فلیٹوں میں سوشل میڈیا سے گِھری ہوئی اپنی نجی زندگی میں اتنے مصروف ہوچکے ہمیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہیں کہ ہماری دیوار کے اُس پار کون رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار ان کی کسی تقریب کے شور یا کبھی کسی غم میں رونے کی آواز سنائی دی جاتی ہے لیکن ہم کبھی بھی دروازہ کھٹکھٹا کر یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں کہ سب خیریت تو ہے؟ ایک وقت تھا جب ہمارے بچے ہمسایوں کے گھر کھانے کی تھالیاں لے کر جاتے تھے اور بدلے میں اُن کو مسکراہٹیں اور دعائیں ملتی تھی۔ زندگی محبت کے دھاگوں سے بُنی ہوئی تھی اور ہر خوشی یا غم ایسے بانٹا جاتا تھا جیسے کوئی خاندانی راز ہو۔ آج وہی کھانا آن لائن آڈر کیا جاتا ہے۔ خوشی اور غم کے جذبات ڈیجیٹل دنیا میں ایموجیز کے ذریعے ظاہر کئے جاتے ہیں۔ ہم نے آسانیاں تو حاصل کی ہیں لیکن اس کے عوض قربت کھو دی ہے۔ ہمارے ہاتھ بھر گئے ہیں لیکن دل خالی ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنے اردگرد مختلف دیواریں کھڑی کر لی ہیں۔ ہم اپنی زندگی کو سوشل میڈیا کی نمایشی جھلکیوں یعنی ریلز میں سمونے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جہاں غم کو فوٹو شاپ کر کے نکال دیا جاتا ہے اور خامیوں کو ایڈیٹ کر کے مٹا دیا جاتا ہے۔
آج ذہنی صحت کے ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اکیلاپن اکیسویں صدی کی بدترین اور خاموش وبا ہے۔ ڈپریشن، بے چینی، اور خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور اس کے وجوہات صرف معاشی مسائل یا سماجی پریشانیاں نہیں ہیں بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ لوگ خود کو تنہا اور نظر انداز شدہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہم نے آپسی برادری کو ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی سے بدل دیا ہے مگر ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ ڈیجیٹل کنکشن کبھی بھی روح سے جڑا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ ہماری پچھلی نسل ایک ایسے زمانہ سے ہے جہاں شادی کے فیصلے بھی محلے والوں کی رائے سے لیے جاتے تھے اور ان کی رائے مداخلت کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے لی جاتی تھی کیونکہ رشتوں کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا لہذا انہیں اکیلے میں نہیں بلکہ اجتماعی مشورے سے قائم کیا جاتا تھا۔ اگر کسی گھر میں کوئی جھگڑا یا نزاع پیدا ہوتا تو پورا محلہ اُسے اپنا مسئلہ سمجھ کر سلجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ لوگ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار رہتے تھے۔ چاہے ایک بے روزگار آدمی ہوتا یا پھر مشکلات سے گِھرا طالب علم یا کوئی بیوہ خاتون، کوئی بھی اکیلا نہیں ہوتا تھا، بلکہ پورا محلہ اُس کے دکھ میں شریک ہوتا تھا۔ مگر دنیا اب بدل چکی ہے اور لوگوں نے اب اپنی ذاتی زندگی کے حالات ایسے بنا دئے ہیں جیسے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہو۔ ہم خاموشی کو وقار اور لوگوں سے دوری کو طاقت سمجھنے لگے ہیں۔ ہم اپنی نجی زندگی کی حفاظت کے جنون میں اپنے اجتماعی رشتوں کی قربانی دے بیٹھے ہیں۔ ہماری کوشش اکثر یہی رہتی ہے کہ کوئی ہمارے دکھ سے واقف نہ ہو جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر انسان کا غم اس کا نجی معاملہ بن گیا ہے۔ وہ جنازے جو کبھی پورے شہر کو اکٹھا کر لیتے تھے اب مختصر، سنسان اور قلیل الشرکا ہوتے ہیں۔ اگرچہ کورونا وبا نے اس رجحان کو ضرور بڑھایا لیکن یہ روش اس سے پہلے ہی چل رہی تھی۔ خوشیاں بھی اب دھیمی پڑچکی ہیں۔ منگنیاں، شادیاں، ترقی اور اولاد پیدا ہونے کی خوشخبریاں سب چھپ کر یا محدود دائرے میں بانٹی جاتی ہیں۔ ماضی کی راز داری اب مستقل نقاب بن چکی ہے جو تحفظ سے زیادہ گھٹن دیتی ہے۔
ہم اکثر فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہمیں کسی پر انحصار کرنا پسند نہیں۔ یہ بات اگرچہ سننے میں مضبوطی کی علامت لگتی ہے مگر دراصل یہ رد کئے جانے اور مایوس ہونے کا ایک خوف ہے۔ ہم اپنے معاشرے پر اعتماد کھو چکے ہیں کہ وہ ہمارے سچ کو رحم دلی سے سنبھال سکے گا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو اس تجربے سے محروم رکھا ہیں کہ کوئی ہمیں اصل میں جانتا ہو اور پھر بھی ہم سے محبت کرے، جو انسانیت کا اصل جوہر ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے بھی یہی محتاط رویہ اپناتے ہیں۔ وہ شروع سے ہی سیکھ جاتے ہیں کہ جذبات کو چپکے سے سنبھالنا چاہیے، کامیابیوں کو چھوٹا کرکے دکھانا چاہیے اور اپنے مسائل کو چھپانا چاہیے۔ دوسروں سے جذبات، غم اور خوشیاں بانٹنے کا فن جو ماضی میں ایک اہم صلاحیت اور ہنر سمجھا جاتا تھا اب دکھاوا یا اُوور شیئرنگ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے اور غیرمحفوظیت کا اظہار کرنا کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ماضی کو یاد کرکے افسوس کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ ایک تہذیبی اور ثقافتی بحران ہے۔ جب کوئی معاشرہ آپس میں خوشی اور غم بانٹنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو وہ پرواہ کرنے کے احساس کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہم اپنے روایتی طرزِ زندگی اور ماضی کے اخلاق و اقدار کی طرف واپس لوٹ سکتے ہیں یا نہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم واپس جانا چاہتے ہیں؟ اس بڑھتے ہوئے سماج سے کٹی ہوئی طرزِ زندگی اور رازداری کی زہریلی فضا کا علاج بہت ہی سادہ اور آسان ہے اور وہ ہے ایک دوسرے کے ساتھ خلوص سے بھرپور تعلق رکھنا۔ حال چال پوچھنے کیلئے اپنے ہمسائیوں کا دروازہ کھٹکھٹانا، اپنے عزیزوں کے ساتھ چائے کا ایک کپ پینا، موبائل اسکرین کے ساتھ چپکتے رہنے کے بجائے ایک دوسرے سے گفتگو کرنا اور خود میں یہ حوصلہ لانا کہ جب ہم ٹھیک نا ہو تو ہم کہہ سکیں کہ ہم ٹھیک نہیں ہیں اور جب کوئی ہم سے یہی الفاظ کہے تو ہم دل سے سنے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ باہمی تعلقات اور اجتماعیت کا شعور نہ پالیسیوں سے وجود میں آتا ہے ہیں اور نا ہی اسمارٹ فون کی کسی ایپلیکیشنز سے، بلکہ یہ چھوٹے چھوٹے خلوص بھرے کاموں سے اور مخلصانہ رویے کے عمل سے پیدا ہوتا ہیں۔ وہ خاتون جو دیوار کے اُس پار راتوں کو روتی ہے شاید وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ کوئی اس سے پوچھ لے کہ کیا آپ ٹھیک ہیں۔ وہ بوڑھا جو کسی پارک میں بینچ پر اکیلا بیٹھا شاید اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے مگر کوئی سننے کو تیار نہیں اور وہ بچہ جو خود میں گم گم سا رہتا ہے شاید اُسے محض تھوڑی سی توجہ درکار ہو۔
میں یہاں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ پرائیویسی کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ برادری اور باہمی تعلقات کو واپس پانے کی دعوت ہے۔ زندگی تنہائی میں جینے کا نام نہیں بلکہ انسانیت کے ناطے باہمی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے کے کام آنے کا نام ہے۔ بے شک راز داری کی اپنی جگہ ہے۔ ہر بات ہر کسی کے لیے نہیں ہوتی ہے۔ لیکن راز داری کا اصل مقصد تحفظ ہونا چاہیے نہ کہ تنہائی۔ جب ہم راز داری کو اپنا درد چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم اکیلے دکھ سہتے ہیں لیکن جب ہم اُسے دوسروں کی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے برتتے ہیں تو یہ دانائی کہلاتی ہے۔ اپنی اصل صورت میں راز داری کوئی دیوار نہیں بلکہ ایک اخلاقی اصول ہے۔ یہ وہ فہم ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ کب بولنا ہے اور کب سننا ہے۔ کب کوئی بات دوسروں کے ساتھ شیئر کرنی ہے اور کب اپنے سینے کے اندر چھپا کے رکھنی ہے۔ مگر آج کی راز داری ایک جذباتی ذخیرہ اندوزی میں بدل چکی ہے جہاں کچھ بھی شیئر نہیں کیا جاتا ہے اور ہر چیز دبا دی جاتی ہے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی تیز رفتار ڈیجیٹل اور حد سے زیادہ نجی زندگیوں میں آگے طرف بڑھ رہے ہیں شاید یہی موقع ہے کہ ہم ایک لمحہ رکیں اور سوچیں کہ ہم کیا کھو چکے ہیں اور کیا پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ شاید یہی وقت ہے کہ ہم اپنی قدیم روایات اور اقدار کو نہ صرف روایات کی خاطر بلکہ انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے جھاڑ پونچھ کر واپس لائے۔ آئیے ہم سب یہ معمول بنائیں کہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ آپ کیسے ہیں؟ آئیے ایک دوسرے کی خوشیوں کو مل کر منائیں اور ایک دوسرے کے غموں کو بھی ساتھ بیٹھ کر بانٹیں۔ آئیے اپنے بچوں کو سکھائیں کہ کھل کر جینا کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ آئیے اپنے اسمارٹ فونوں کے اسکرینوں کو بند کریں اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ رازداری کا زہر خاموشی سے پھیل رہا ہے لیکن خلوصِ تعلق کا ایک چھوٹا سا عمل اس کا تِریاق ہو سکتا ہے۔ آئیے چلیں… اور کسی کے دروازہ پر دستک دیں۔ کیا پتا شاید کوئی وہاں ہمارا منتظر ہو۔