hassn sahoo

تبـصرہ:بیتے دنوں کا کرب

کتاب۔۔ بیتے دنوں کا کرب
مصنف ۔۔حسن ساہو
صفحات۔۔ 124
قیمت۔۔ 300
سنہ اشاعت۔۔ 2021
ناشر۔۔ الحیات پبلیشر
مبصر۔۔ زاہد ظفر

حسن ساہو جموں و کشمیر کے فکشن نگاروں میں ایک نمایاں نام ہیں ۔ ان کے اب تک پانچ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ” پھول کا ماتم 1997″ .” بستی بستی صحرا صحرا 1981″ . “اندھا کنواں 1996’’گردش دوراں 2009″اور “بیتے دنوں کا کرب 2021 ” میں ۔بیتے دنوں کا کرب ان کے افسانوں اور افسانچوں کا مجموعہ ہے جیسے الحیات پرنٹرز نے پبلش کیا ہے.یوں تو اس افسانوی مجموعہ میں 20چھوٹی بڑی کہانیاں شامل ہیں جن میں کرشمہ،قربانی،راہ کا روڑہ،سوکھے شجر کا سایہ،احساس اور بیتے دنوں کا کرب،عمدہ اور خوبصورت افسانے ہیں اس کے علاوہ اس مجموعے میں مصنف نے خود کی حالات زندگی اور ادبی سفر پر ایک تفصیلی مضمون بھی شامل کیا ہے کتاب کے آخر میں اردو کی قدآور شخصیات کے تاصرات بھی شامل ہیں جن میں خاص کر خلیل انجم ، رگھووش رائے ، احمد عثمانی، نور شاہ، ڈاکٹر ریحانہ فاطمہ وغیرہ
اس مجموعے میں شامل تمام کہانیاں حساس موضوع پر لکھی گئی ہیں جو انسانی زندگی کے بہت قریب ہیں۔ ان کہانیوں میں معاشی اور اقتصادی زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے واقعات کو قریب سے دیکھ کر بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے ہر کہانی میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا خوب خیال رکھا گیا ہے۔ بیشتر کہانیاں قاری کو اپنی گرفت میں لے مطالعہ کی کشش بڑھاتے ہوئے آخر تک لے جاتی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ مصنف کے نجی زندگی کے تمام مشاہدے اور تجربے ہر کہانی میں نمایاں نظر آتے ہیں
بقول ڈاکٹر محمد ظفر حیدری…
” حسن ساہو کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. ان کے افسانے تحریر کرنے کا ایک منفرد انداز ہے زبان سادہ اور سلیس تھیم متاثر کن اور کہانی میں روزمرہ زندگی کے نقوش جن میں نے نے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ ساہو صاحب نہایت بے پاک صاف گو اور کھلے مزاج کے انسان ہیں ۔وہ لچھےدار باتوں میں یقین نہیں رکھتے۔ جو ان کے دل میں آتا ہے بنا لاگ لپیٹ کے کہہ دیتے ہیں۔’’ گردش دوران‘‘ میں قارین کو مدنظر رکھ کر مختلف موضوعات پر افسانے لکھے گئے ہیں ہر افسانہ حقیقت کے قریب ہے جس میں ایک پیغام ہے نصیحت ہے۔”
124 صفات پر مشتمل اس افسانوی مجموعہ کی پہلی کہانی کرشمہ ہے جس میں مصنف نے بہترین اور انچھویے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
عورت ہر دور میں موضوع بحث رہی ہے کہ کسی نے اس کی بے بسی پر ترس کھایا ،کسی نے اس کی لاچاری پر آہ بھری اور کسی نے اس کی بدقسمتی پر آنسو بہائے۔ افسانہ کرشمہ بھی ایک نوجوان لڑکی راحیلہ کی کہانی ہے۔ راحیلہ بچپن سے ہی بڑی زہین اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ نیک سیرت اور ایک اچھی قلمکاراں تھے لیکن راحلہ کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اس کی بدصورتی تھی۔ افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
” وہ کافی حد تک بدصورت تھی سانولا رنگ، چھوٹا قد، بال گھونھگھر والے، لمبی ناک اور نیچے ہونٹ کے اوپر آگے کے دانت باہر نکلے ہوئے، حالانکہ اس میں خوبیاں بھی بہت ہی قلم کار ہونے کے علاوہ طرح طرح کے کھانے پکانے اور سلائی کڑھائی میں بھی ماہر تھی پاس پڑوس والے عزیز رشتہ دار اور سہیلیاں سب ہی راحیلہ کی خوبیوں کے معترف تھے ۔”
ایک عورت میں لاکھوں خوبیاں ہوں لیکن اس کا بدصورت ہونا اس کے لیے سزا ہے یہ بدصورتی اس کے خیالوں میں پیوست ایسا داغ ہے جو اس کے وجود کو لمحہ لمحہ ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اوراس کی خود اعتمادی کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل افسانہ “دور کٹی پتنگ” میں ہمارے معاشرے کی سب سے پیچیدہ مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس نے نہ جانے کتنے جوانوں کی ذندگی میں زہر گھول دیا ہے آج کل کے نوجوان جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی مجازی عشق اور محبت کے جنون میں ایسے فیصلے یا قدم اٹھا لیتے ہیں جو ان کے لیے شرمناک ثابت ہوتے ہیں. اس افسانے میں رابعہ نامی ایک لڑکی عمران نامی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کے بہکاوے میں آکر گھر سے بھاگ کر اس سے شادی کر لیتی۔ کچھ مہینوں کے بعد جب یہ عشق کا جنون اس کے دل اور دماغ سے نکل جاتا ہے اور عمران کا اصلی چہرہ اس کے سامنے آتا ہے تو بغیر پچھتاوے کے اس کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ افسانےسے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
” والدین کی چاہت کو بالائے طاق رکھ کر عمران کے ساتھ چوری چھپے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور ایک شب عمران نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے رام کیا اور گھر سے نکلنے کی ترغیب دی۔
آج مجھے باپ کی شفقت اور ماں کی نصیحت آمیز باتیں رہ رہ کر یاد آتی ہیں۔ان کی دور اندیشی سے لبریز باتیں یاد کرکے اس قدر روتی ہوں جیسے ماں کی گود سے نوزاید چھینا ہوا بچہ روتا ہے۔”
وادی کشمیر کے اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کی مثال پوری دنیا میں دی جاتی تھی لیکن وقت کے تیز رفتار پہیے نے اپنی تیز رفتاری سے ان ساری چیزوں کو کچل دیا ۔مصنف کا لکھا ہوا افسانہ “قلی” اس کی ایک عمدہ مثال ہے افسانے میں کشمیریوں کے ماضی کا وہ درد نمایاں نظر آتا ہے جو ان کے سینے میں آج تک پیوست ہے جب انہوں نے اپنی نم آنکھوں سے اپنے پنڈت بھائیوں کو خود سے دور ہوتے ہوئے دیکھا تھا افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو ۔۔
” نامساعد حالات کے زیر اثر اعتماد و اعتبار کے تھم ایک ایک کر کے زمین بوس ہو گئے۔ لوٹ مار اور آتشزدگی کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد نے ہجرت کی راہ اپنا لی۔”
اس افسانوی مجموعے میں افسانوں کے علاوہ دس کے قریب افسانچے بھی شامل ہیں ۔ جن میں خاص کر سوالیہ نشان، احساس اور محافظ بہت ہی بہترین اور عمدہ افسانچے ہیں ان افسانچوں کے مطالعے سے مصنف کی اس فن پر مہارت کا احساس بخوبی ہو جاتا ہے، حسن صاحب موجودہ دور میں جموں کشمیر کے ادبی افق پرنمائندہ کردار پیش کر رہے ہیں ۔اس افسانوی مجموعے کے مطالعہ کے بعد یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ افسانوی مجموعہ اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت قائم کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اور نئے قلم کاروں کی آبیاری میں معاون ثابت ہوگا۔