ایران پر امریکی حملے پر خود امریکہ میں بھی تنقید، تہران نے سفارتی عمل کی ناکامی کا ذمہ دار واشنگٹن و تل ابیب کو ٹھہرایا

ایران پر امریکی حملے پر خود امریکہ میں بھی تنقید، تہران نے سفارتی عمل کی ناکامی کا ذمہ دار واشنگٹن و تل ابیب کو ٹھہرایا

واشنگٹن/تہران: ایران کے تین اہم جوہری ٹھکانوں پر امریکہ کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں پر اندرونِ امریکہ اور عالمی سطح پر شدید ردِ عمل دیکھنے کو ملا ہے۔ خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی سرکردہ ارکان نے ان حملوں کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں آئینی اصولوں اور کانگریس کے اختیارات کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔بی بی سی ہندی کے مطابق، کانگریس کی رکن الیکزینڈریا اوکاسیو-کورٹیز نے ان حملوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ اقدام امریکی آئین اور جنگ سے متعلق کانگریس کے اختیار کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ عمل صدر ٹرمپ کے مواخذے کی بنیاد بن سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر لکھا، ’’انہوں نے جلدبازی میں ایسا قدم اٹھایا ہے جو ایک ایسے طویل جنگ کا آغاز کر سکتا ہے جس میں ہم برسوں پھنستے رہیں گے۔‘‘
دوسری طرف، کانگریس کی رکن رشیدہ طالب نے بھی امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور کانگریس کو فوری طور پر اس میں مداخلت کرنی چاہیے۔‘‘ انہوں نے ماضی کے تناظر میں کہا کہ ’’ہم نے دیکھا کہ کس طرح ‘تباہی کے ہتھیاروں’ کے جھوٹے دعووں پر مشرق وسطیٰ میں طویل جنگوں میں امریکہ نے خود کو الجھایا۔ اب ہم دوبارہ اس چال میں نہیں آئیں گے۔‘‘
مزید برآں، کانگریس کے رکن جِم میکگورن نے موجودہ صورت حال کو ’پاگل پن‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’صدر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر بمباری کی اور ہمیں غیرقانونی طریقے سے مشرقِ وسطیٰ کے ایک اور جنگ میں دھکیل دیا۔ کیا ہم نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا؟‘‘
ادھر ایران نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے امریکہ اور اسرائیل پر سفارتی عمل کو ناکام بنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا، ’’گزشتہ ہفتے ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے کہ اسرائیل نے حملہ کر کے سفارت کاری کے دروازے بند کر دیے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ’’اس ہفتے جب ہم یورپی ممالک اور یورپی یونین کے نمائندوں سے بات کر رہے تھے، امریکہ نے حملہ کر دیا اور سفارتی عمل کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔‘‘انہوں نے مغربی طاقتوں سے سوال کیا، ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایران اس میز پر دوبارہ آئے جہاں سے وہ کبھی اٹھا ہی نہیں تھا؟‘‘ ایران کے جوہری توانائی ادارے (اے ای او آئی) نے امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان حملوں کی مخالفت کرے اور ایران کے مؤقف کی حمایت کرے۔
دریں اثنا، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تصدیق کی ہے کہ ایران کے جن تین جوہری مقامات کو نشانہ بنایا گیا، ان میں فوردو بھی شامل ہے اور وہاں ریڈی ایشن کی سطح میں کسی قسم کا اضافہ نوٹ نہیں کیا گیا۔ ادارے نے کہا ہے کہ وہ حالات کا مسلسل جائزہ لے رہا ہے اور مزید معلومات دستیاب ہوتے ہی دنیا کو باخبر کرے گا۔خیال رہے کہ 2015 میں ہوئے جوہری معاہدے سے امریکہ 2018 میں علیحدہ ہو گیا تھا، جس کے بعد ایران نے بارہا یورینیم افزودگی بڑھانے کی دھمکی دی تھی۔ حالیہ حملوں نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔