منفی سوچ اور منفی لوگ آپ کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے!

اہل مدارس میں احساس کمتری یا احساس برتری

نقی احمدندوی ،ریاض،سعود ی عرب

مجھے یاد ہے کہ جب میں آپ ہی کی طرح مدرسہ کا طالب علم تھا، اس وقت میں بھی بڑی خوش فہمی اور احساس برتری میں مبتلا تھا۔ اپنے آپ کو ایک علامہ سے کم نہیں سمجھتا۔ خوش قسمتی سے میں ایک ایسے عظیم ادارہ کا طالب علم رہا ہوں، جہاں بڑے بڑے مصنفین، محققین، فقہاء اور محدثین، ادباء اور مفکرین، دعوتِ دین کے سپہ سالار اور عظیم قائدین پیدا ہوئے۔
لہٰذا ایک مختصر سی مدت میں عربی زبان میں اچھی قابلیت پیدا کر لی۔ تفسیر اور حدیث پڑھا۔ فقہ کی باریکیاں سمجھیں اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کر کے جلد ہی اپنی جگہ ایسے طلباء کے اندر بنالی جو اپنی صلاحیت وقابلیت کی وجہ سے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ اردو زبان وادب پر دسترس حاصل کرنے کے بعد مختلف موضوعات پر مقالات لکھنا میرے لیے آسان تھا اور پُرجوش اور شعلہ بیاں تقریریں کرنا میرا شوق۔ اسلام کے عروج وزوال کا مطالعہ کرنے، ائمہ، سلف صالحین اور مجددین کی سیرت وسوانح پڑھنے کے بعد میں خود کو محسوس کرنے لگا کہ میں بھی امت کے مجددین میں سے ایک مجدد بنوں گا، جو تاریخ اسلام کے دھارے کو موڑ دے لا اور مدرسہ سے فراغت کے فوراً بعد ایک انقلاب برپا کر دے گا۔ میرے دوستوں نے بھی میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا، انہوں نے مجھے یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ میرے اندر وہ تمام صلاحیتیں اور قابلتیں موجود ہیں جو ایک انقلاب برپا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
کم وبیش یہی خیال اور ایسا ہی احساس مدرسوں کے طلباء کے اندر عمومی طور پر پایا جاتا ہے۔ ایسی خوش فہمی اور احساس برتری پیدا کرنے میں مدرسہ کا بند ماحول، اساتذہ کی تعلیم وتربیت اور مقررین وخطباء جو گاہے بہ گاہے مدرسہ کی زیارت کرتے رہتے ہیں اپنا بھرپور رول ادا کرتے ہیں۔
مدارس کے ہم معصوم طلباء کے ذہن ودماغ میں یہ بات مکمل طور پر بٹھا دی جاتی ہے کہ مدرسہ کی چہار دیواری کے باہر الحاد ولادینیت کی سخت ہوائیں چل رہی ہیں، کفروشرک گیٹ پر کھڑا آپ کا انتظار کر رہا ہے، عریانیت اور بے حیائی سرِ عام ناچ رہی ہے، باطل افکار وخیالات کی ایسی تیز وتند ہوائیں چل رہی ہیں کہ جیسے ہی آپ مدرسہ کے باہر نکلیں آپ اس میں اڑ جائیں گے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ امت اسلامیہ میں پیدا ہوئے اور اس سے بھی بڑی خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا یہ حسین موقع ملا۔
چنانچہ مدرسہ کا بے چارہ معصوم طالب علم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ ایک آسمانی مخلوق ہے۔ مدرسہ کی چہار دیواری میں وہ بالکل محفوظ ہے۔ چناںچہ باہر کے لوگوں کو خواہ وہ کتنا ہی بڑا ڈاکٹر، انجینئر یا پروفیسر کیوں نہ ہو، شک بلکہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس میں جو طلباء ذہین، محنتی اور تھوڑی بہت باصلاحیت ہونے میں ان کو باہر کی دنیا تاریک دکھتی ہے، جس کے اندر وہ روشنی جلاکر اندھیرا مٹانے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں اور جو میری طرح اپنے آپ کو چند کتابیں پڑھنے کے بعد بقراط اور سقراط سمجھ بیٹھتے ہیں وہ ایک نئے انقلاب کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں اور خود کو ایک عظیم مجدد اور مصلح سے کم نہیں سمجھتے۔
مگر ہم لوگ فراغت کے بعد جب مدرسہ کی چہار دیواری کے باہر قدم رکھتے ہیں تو دنیا کی کوئی اور تصویر نظر آتی ہے اور وہ ساری خوش فہمیاں یک لخت کافور ہو جاتی ہیں، جو پچھلے آٹھ دس سال میں ہم نے اپنے دل ودماغ میں پال رکھی تھیں۔ جب ہمارا سامنا حقائق سے ہوتا ہے تو ہمارا معاشرہ، دوسرے کالجز اور یونیورسٹیوں کے فارغین اور چمکتی دمکتی دنیا کے ارباب یہ احساس دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ ہم نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ جس جنس کو حاصل کرنے میں صرف کر دیا اس جنس کا اس بازار میں کوئی خریدار نہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم آسمان سے زمین پر گر پڑتے ہیں اور یہیں سے احساس کمتری کے سمندر میں ہچکولے کھنا شروع کر دیتے ہیں۔ چناںچہ خوش فہمی اور احساس برتری کی جو فلک بوس عمارت سالوں کی محنت کے بعد ہم نے تعمیر کی تھی یک لخت وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے۔بہت سارے وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بڑی وجہ ہماری اس حالت کی یہ ہے کہ ہمارے مدرسے زندگی کے تلخ حقائق سے ہمیں واقف اور آگاہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں جن کا سامنا مدرسہ کی فراغت کے بعد ہر فارغ التحصیل عالم اور مولوی کو کرنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے آپ یہ ذہن نشیں کر لیں کہ جو کچھ آپ نے مدرسہ میں پڑھا ہے یا پڑھ رہے ہیں، وہ آپ کے معاشی آزادی کی ضامن نہیں۔ علوم دینیہ پڑھنے کے بعد خاص طور پر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو اچھی نوکری اور بہتر ذریعہ معاش مل جائے گا تو آپ کی یہ غلط فہمی ہے۔ مدرسہ کے ذمہ داران یہ کہتے ہیں کہ مدرسہ کی تعلیم دین کی خدمت کے لیے دی جاتی ہے یہ دنیوی جاہ وحشمت اور پیسے کمانے کے لیے نہیں۔
میں بھی اس سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں مگر میں صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علماء کو بھی ایک اچھی زندگی گزارنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔ ان کی دنیوی ضروریات بھی ویسی ہی ہیں جو ایک عام انسان کی ہے اور جب ان کی بنیادی ضروریات کی بھی تکمیل کرنا ان کے لیے مشکل ہو گا تو وہ دین وملت کی کیا خدمت کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسے سے نکلنے کے بعد فارغین مدارس کی ایک بڑی تعداد یا تو مسجدوں کی امامت کرتے ہیں یا کسی مدرسہ اور مکتب سے جڑ جاتے ہیں۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ نے مدرسہ میں داخلہ لے کر کوئی بڑا جرم کیا یا کوئی بڑی غلطی کر دی؟ ہرگز نہیں! ہمارے ملک میں بلافیس اور بلامعاوضہ اگر کہیں اچھی سے اچھی تعلیم ممکن ہے تو یہی علم ودانش کے وہ جھونپڑے ہیں، جہاں پر ہمارے اساتذہ ہمیں مفت میں ایسی تعلیم دیتے ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے اسکولوں میں موٹی فیس لی جاتی ہے۔
افریقہ میں علی حافظ نامی ایک شخص رہتا تھا، جس کے پاس بہت بڑا فارم تھا۔ علیایک روز ایک پادری کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے علی حافظ کو ہیرے اور جواہرات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا۔ اس نے کہا کہ اگر تمہارے پاس ایک انگوٹھے کے برابر ہیرا جو تو تم پورا گاؤں خرید سکتے ہو اور اگر مٹھی برابر ہیرا ہو تو پورا شہر خرید سکتے ہو۔ علی حافظ جب رات کو سونے کے لیے بیڈ پر گیا تو وہ سو نہ سکا۔ وہ آج ناخوش تھا، کیوںکہ وہ قانع اور مطمئن تھا۔
صبح اٹھا تو اس نے ہیروں کی تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ چناںچہ اس نے اپنا فارم بیچ دیا اور اہل وعیال کو چھوڑ کر ہیروں کی تلاش میں نکل پڑا۔ وہ فلسطین گیا، وہاں اسے کچھ نہ ملا،پھر ہیرے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یورپ تک چلا گیا۔ اس کے بارے پیسے ختم ہو چکے تھے اور طویل سفر کی وجہ سے تھک کر چور ہو گیا تھا۔ وہاں بھی اسے ہیرے نہ ملے تو واپسی میں اس نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔
یہاں جس شخص کو اس نے اپنا فارم بیچ دیا تھا وہ اس جھرنے کے نیچے کچھ کام کر رہا تھا جو فارم کے بیچ سے گزرتا تھا۔ اسے کچھ چمکتے ہوئے پتھر نظر آئے۔ اس نے ایک رٹھا لیا اور اپنے ڈرائنگ روم میں نصب کر دیا۔ جب اس نے اس چمکتے ہوئے پتھر کو دیکھا تو پوچھا، یہ تمہیں کہاں سے ملا؟ اس نے جواب دیا کہ ایسے بہت سارے پتھر میرے فارم کے جھرنے میں موجود ہیں۔ پادری نے کہا! یہ ہیرا ہے اور میں ہیروں کو پہچاننے میں ماہر ہوں۔ وہ شخص پادری کو جھرنے کے نیچے لے گیا جہاں پر ایک دو ہیرے نہیں بلکہ دنیا کے بیش قیمتی ہیروں کی کھیت تھی۔ پادری نے پوچھا کہ علی حافظ کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ اس نے یہ فارم مجھے بیچ کر ہیروں کی تلاش میں نکل گیا ہے۔ اس فارم کے ہیرے اب تک پائے جانے والے ہیروں کی سب سے بڑی کان تھی۔
ہمارے مدرسوں میں بھی ہیرے جواہرات موجود ہیں۔ ہمیں ان کی تلاش میں مدرسہ چھوڑ کر باہر جانے کی ضرورت نہیں، اگر کسی ایک سبجکٹ یا ایک سمت میں مدرسہ کی تمام سہولیات کا استعمال کرتے ہوے محنت کرتے ہیں تو یقین مانیے آپ جہاں کہیں بھی ہیں وہیں سے آپ اپنی زندگی میں بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔