قیصر محمود عراقی
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی اور دین چھوڑ کر دنیا کو اختیار کیا تو بدلے میں انہیں دنیا تو نہ ملی بلکہ اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب کے مستحق ٹھہرائے گئے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دنیا مانگتا ہے تو دنیا اس کے منھ پر مار دی جاتی ہے اور جو آخرت کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی عطا کی جاتی ہے۔ وہ شخصیات جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے فانی دنیا کو ٹھوکر ماری، ایسے لوگوں کے ذکر کو باری تعالیٰ قیامت تک جاری فرمادیتا ہے اور دنیا ان سے رہنمائی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
کربلا میں حضرت امام حسینؓ نے دین اسلام کی بقا اور سربلندی کیلئے جس طرح جوانمردی اور شجاعت کے ساتھ جنگ کی اور جس مجاہدانہ انداز سے اپنے پورے خاندان کو قربان کردیا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حق جیت گیا اور باطل ہار گیا۔ آپ ظاہری طور پر تو شہید ہوگئے مگر حسینیت کو دوام حاصل ہوگیا، ویسے بھی حسینیت کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ حسینؓ ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ حسینؓ تو ایک عالمگیر پیغام حق ہے، ایسا آفاقی پیغام ہے جو رہتی دنیا تک انسانوں کو باطل کے خلاف ولولہ شوق عطا کرتا رہیگا۔ حسینؓایک مسلسل تحریک ہے ، حسینؓایک مذہب ہے جو ہمیشہ طاغوتی طاقتوں سے ٹکراتارہیگا، حسینؓتو ایک ملت ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوکر میدان کربلا میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچی۔ امام عالی مقام کی شہادت اسلام کے احیاکیلئے منارہ نور ہے، جب تک یہ دنیا قائم رہیگی ان کی محبت وعقیدت ہر مسلمان کے دل میں رہیگی۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم شہدائے کربلا کے ایثار وقربانی کو محض رسمی طور پر نہ سمجھیںبلکہ دین اسلام کے مقصد عظیم کے خاطر امام حسینؓنے اپنی جان کا جو نذرانہ پیش کیا ، اس فلسفے کو عزیز جانیں، اسی میں ہماری فلاح ونجات ہے۔ آج پیغام حسینی کی نشر واشاعت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کیونکہ انسان اپنے دین سے دور ہوتا جارہا ہے۔ تو جناب ہم کب بیدار ہونگے، وقت آچکا ہے کہ حسینؓکو تقسیم اور تفریق کیلئے نہیںصرف جمع کیلئے پیش کیا جائے، پیغام کربلا کا پرچار کیا جائے اور اس کا پرچار ظلم کے مخالف اور مظلوم کے ساتھی عوام ہی کرسکتے ہیں اور ان ہی کو کرنا بھی چاہئے، کیونکہ ہر دربار ، سرکار میں حاضری دینے والوں سے امید لاحاصل ہے۔ یہ جھوٹ اور سچ کا کھیل ہمیشہ رہیگااور اصول فروش اور اصول پرست بھی ہمیشہ آمنے سامنے آتے رہینگے۔
قارئین محترم !آج بھی کربلائیں سجی ہوئی ہیں، آج بھی شام کے بازار کھلے ہوئے ہیں، آج بھی دمشق کے دربار لگے ہوئے ہیں، محل سرائیں، قلعے ، اونچے اونچے میناریں قائم ہیں، حسینؓ بھی ہیںاور یزید بھی ہیں۔ آج بھی حسینؓیزیدیوں کے نرغے میں ہیں، آج بھی حسینؓنہتے اور ادھر شمشیریں ہیں، یزیدیوں کا گھیرا آج بھی مضبوط ہے، مظلوم کربلا اپنے گھرانے اور جانثاروں کے ساتھ حصار میں ہیں، آج بھی فرات لبالب بھرا ہوا ہے، زور شور سے عین سامنے بہہ رہا ہے اور حسینی پیاسے ہیںاور فرات کو دیکھ رہے ہیں۔ آج بھی فرات پر پہرا ہے، ادھر حسینی بھوکے اور اُدھر انواع اقسام کے کھانے پینے ہیں، وہی رزق کی توہین کے مناظر ہیں، بچے کھچے کھانے کتے بلیا ں کھارہے ہیں اور کھانے کے بعد سرور وکیف کے دور چل رہے ہیں۔ اصول وضابطہ سب کتابوں میں بند ہے اور منھ سے نکلی بات ہی قانون ہے۔ آج بھی کالی صدیوں کی بے داد جاری ہے، قتل کرکے مجرم چھوٹ جاتے ہیں، آج بھی دولت معیار ہے اور اونچے اونچے محلوں میں لہو کے چراغ جل رہے ہیں،غریبوں کا پرسان حال کوئی نہیں، اسلام کے نام پر قتل ہورہے ہیں، گردنیں کاٹی جارہی ہیں، عبادت گاہیں تباہ کی جارہی ہیں، درسگاہیں جلائی جارہی ہیںاور منہدم کی جارہی ہیں۔ آج بھی یہی منظر نامہ ہے، تمام پیر ، فقیر ، خانقاہوں کے مالک ، سجادہ نشیں، گدی نشیںاور دعائیں وظیفے کرنے والے سفید براک وباریش سب کے سب ہمیشہ کی طرح دربار کے ساتھ ہوتے ہیں، دربار میں علماومشائخ مجتمع ہوتے ہیں اور خیر سے سارے مکتب فکر فقہ عقیدہ کے علماومشائخ خشوع وخضوع کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، بڑے بڑے تاجر ، زمیندار، سردار اور خان صاحب سب کے سب ہمیشہ دربار کے ساتھ ہوتے ہیں تاکہ ان کے کاروبار ، ناجائز بینک بیلنس ، زمینیں ، کھیت ، کھلیان ، باغات اور نجی جیلے محفوظ رہیںاور ان کا ظلم قائم رہے، وہ کمزوروں اور غریب مزدوروں سے جبری مشقت لیتے رہیںاور دو نمبری کاموں سے دولت کماتے رہیں، ان کے دسترخوانوں پر عمدہ کھانے پینے چلتے رہیںاور غریب مزدور بھوکے مرتے رہیں۔
قارئین محترم! محرم پھر آگیااور محرم یونہی آتا رہیگا مگر اب وقت ، حالات اور واقعات تقاضہ کررہے ہیں کہ دنیا بھر کے مظلوموں کو اسوۂ حسینؓ کے مطابق ظلم وجبر کے خلاف پیش کیا جائے ، لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ حضرت امام حسینؓکا ہم سب پر احسان ہے کہ آج اسلام اپنی اصل شکل میں موجود ہے، لیکن افسوس آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں ، ہم محض واقعات کو یاد کرکرے نوحہ کناہوتے ہیں، ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ ہمیں کربلا کی میدان کی قربانی کو اپنے لئے مشعل راہ بناتے ہوئے اپنے زندگی اس واقعے سے حاصل سبق کے تحت گذارنا چاہئے، ملک اور دین کیلئے کچھ کرنا چاہئے جس کا وقت متقاضی ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یزید ایک شخص کا نام نہیں ، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے، حسینؓ بھی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے ، حسینؓاور حسینیت محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرز عمل کا نام ہے، ایک گائڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسینؓعالی مقام کی انگنت قربانیاں ہوں، تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ وبرتر کا ہی معجزہ ہے۔ کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرأت اور کردار وعمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطاکردی، لہذا یہ بات ذہن نشین رہے کہ امام حسینؓکی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کیلئے نہیں تھی بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی، ان کا ماننا تھا کہ اس زمین پر وہی رہیگاجو حق کیلئے کھڑا ہوتا ہے، چاہے اسے قربان ہی کیوں نہ ہونا پڑے؟
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل6291697668